بھی اس میں لگانے کے لئے اپنی سب سے غبی اور گھٹیا اولاد کا انتخاب کرتے ہیں ، جو کسی اور لائن میں چل ہی نہیں سکتی ، سوچتے ہیں کہ اسی راہ سے جو تھوڑا کمالیں گے وہی غنیمت ہے ، پھر یہی لوگ استاذ بن جاتے ہیں ، ان کی نیت زندگی بھر درست نہیں ہوتی ایک طرف سرپرست کی نیت کی خرابی ، اور دوسری جانب اس کے اثر سے استاذ کی نیت کا نقص ، بس طالب علم پٹ کر رہ جاتا ہے ، اسی لئے میں کہتا ہوں کہ طالب علم کو سنبھل کر رہنا چاہئے ، اور اگر کبھی معیار کا استاذمیسر آجائے تو اسے گوہر سے بڑھ کر سمجھنا چاہئے ۔ آج ہر چیز پیٹ کی نظر سے پرکھی اور دیکھی جاتی ہے کہ اس میں شکم پروری کا کتنا حصہ ہے اوراسی کو معیارِ کمال قرار دیاجاتا ہے ۔ میرے عزیز ! یہی چیز علم دین میں گھس آئی ہے ، ہر طرف دنیا دنیا کی ہاہاکار مچی ہوئی ہے ، مولوی اسی میں چوپٹ ہوا ہے ، حکومت کے کارندے چند سکے پھینکتے ہیں اور مدارس والے ٹوٹ پڑتے ہیں ، کام خراب ہوچکا ہے ،ا ب اس تاریک فضا میں نیت کیسے صحیح رکھی جائے ، سنو میں بتاتا ہوں ۔
علم دین کے حصول سے مقصود اﷲ کو بناؤ ! دنیا کی ہر چیز سے آنکھ بند کرلو ، مخلوق کی طرف نگاہ تک نہ کرو ، دنیا کا کوئی تقاضا ہو پسِ پشت ڈال دو ، یہ نہ سوچو کہ جب میں اوپر سے نگاہ ہٹالوں گا تو پھر کیا ہوگا ، میری دنیا کیسے چلے گی ، دنیا میں بیوقوف سمجھاجاؤں گا ، کمتر معیار پر زندگی گزارنی پڑے گی ، لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل وخوار ہوں گا ، اور سب سے بڑا معاملہ والدین کا ہوگا کہ ان کی تابعداری کی مامور بہ ہے ۔
میرے عزیز! یہ سب وساوس ہیں ، اصولی بات یہ سمجھو کہ مخلوق خواہ کیسی بھی ہو مستقل نہیں ہے ، ہر ایک اپنے وجودو بقا بلکہ اپنی ہر سکون وحرکت میں خدا کی محتاج ہے ، ایک شخص سینکڑوں ہزاروں خواہشیں رکھتا ہے مگرا س کی زندگی مخالف راستوں پر دوڑتی چلی جاتی ہے ۔ انسان ارادہ کرتا ہے اور خدا کے ارادے کے سامنے چل نہیں سکتا ، بلکہ