رہیں گے ، حتیٰ کہ وہ ہم سے تعلیم بھی چھڑا نا چاہیں تو ہم کسی قسم کی شکن کے بغیر جبینِ نیاز خم کردیں گے ۔ تعلیم دین کا وہ مرحلہ جس میں آدمی مولوی بنتا ہے فرض نہیں ، اگر والدین نہیں چاہتے تو ہم قطعی اس سے دستبردار ہوجائیں گے ، اور یہ محض اس لئے ہوگا کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اسی میں ہے ، مقصود یہاں بھی وہی ہے ، ارے میاں مقصود یہی ہے خواہ کسی راستے سے ہو ، اگر اﷲ تعالیٰ کی آزمائش اسی راستے سے آتی ہے تو سر آنکھوں پر ، ہم بندے ہیں ہمارا کام تعمیل حکم ہے ، چوں چرا نہیں ، اپنے طرزِ عمل سے والدین کو اطمینان دلادینا چاہئے ، پھر سچی بات یہ ہے کہ والدین ہمیشہ تمہارے حق میں رہیں گے ، مگر خیال رہے کہ تمہارا یہ رویہ اس لئے نہ ہو کہ والدین ہمیشہ تمہارے حق میں رہیں ، کیونکہ یہ بہت خطرناک نیت ہے ، نیت یہ ہو کہ خداراضی ہوں ، بس ،ا س کلیدی چیز کو پکڑلو ، علم دین کے حصول میں یہی نیت ہونی چاہئے ، خدا تمہیں ہر مقصد میں کامیاب فرمائیں گے ، اس کے بغیر یہ علم دین أشدعذاب کا سبب بن جائے گا ، یاد رکھو قیامت کے دن سب سے سخت عذاب میں عالم دین ہی ہوگا ، جس نے اپنے علم پر منصفانہ عمل نہیں کیا ، علم دین دودھاری تلوار ہے ، ذرا سی غفلت میں یہ تلوار اپنے اوپر چل چائے گی ، خوب دھیان رکھو ، چند باتیں مختصر لکھ دی ہیں ، ا مید کہ سمجھ میں آگئی ہوں گی ۔ کچھ اشکال ہوتو لکھ بھیجو، مولانا ابوالقاسم صاحب نے وقتی معاملات کے متعلق تم لوگوں سے کچھ کہا ہوگا ، ان کے ارشادات کو حرزِ جان بناؤ ، تم لوگوں کی ہمدردی اور خیر خواہی میں ہم دونوں ایک نقطہ پر ہیں ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
٭٭٭٭٭