پورا وجود ، بلکہ ساری کائنات اسی کے احسان ورحمت کا کرشمہ ہے ،ا گر اس کی رحمت پل بھر بھی نگاہ پھیر لے تو یہ ساری کائنات اچانک معدوم ہوکر رہ جائے ، وہ اپنے کرم سے ہر وقت اور ہر آن اس پورے عالم کی نگہبانی فرماتا ہے ، آدمی اگر پوری عمر اس کے سامنے سجدہ میں پڑا رہے ، اور دل میں ذرا دیر کے لئے بھی کسی دوسرے کا تصور نہ آئے زبان مسلسل اس کی حمد وثنااور شکر گزاری میں مصروف رہے ، جب بھی اس کا کوئی ادنیٰ سا حق بھی ادا نہیں ہوسکتا ، اور کون اس کا حق ادا کرسکتا ہے ، جبکہ سب عابدوں کے عابد ، اور سب شکر گزاروں کے شکر گزار نے خود یہ اقرار کرلیا ہے کہ ہم نہ عبادت کا حق ادا کرسکتے ہیں اور نہ معرفت کا ! تو اب بس چارۂ کار یہ ہے کہ اپنی طاقت بھر ، اپنے مقدور بھر اس کی یاد میں ، اس کے ذکر میں ، اس کے فکرمیں لگے رہیں ، اور دنیا کو جیسے جیسے برتنے کا حکم دیا ہے ، اسی طرح برتتے رہیں ، اس کے حکم کا ہمیشہ پاس ولحاظ رکھیں ، اس کو کبھی ناراض نہ کریں ، اگر اتنا کرنے کے بعد ان کی عنایت متوجہ ہوجائے تو کیا کہنا سبحان اﷲ ! اور ضرور متوجہ ہوگی ، بس اپنی وسعت بھر کوتاہی نہ ہو ۔
نماز کی پابندی ، نوافل کا اہتمام ، تمام حقوق العباد جو اپنے اوپر عائد ہوں ، ان کو اچھی طرح عبادت وطاعت سمجھ کر ثواب کی نیت سے ادا کرنا ، دل کو کینہ کپٹ ، بغض وحسد ، دنیا کی محبت ، مال ودولت کی لالچ سے پاک وصاف رکھنا ، صبروشکر کا عادی بننا ، دل میں خدا ورسول کی محبت بلکہ عشق رکھنا ، یہی سب کام اس دنیا میں کرنے کے ہیں ، اگر یہ کام کئے تو زندگی ہر طرح کامیاب ہے ، اگر اس میں کوتاہی ہوئی ، تو آدمی چاہے دولت میں نہایا ہوا ہو ، عزت میں سر مست ہو ، کیا فائدہ ؟ جبکہ وہ اپنے مالک ومولیٰ ہی کو ناراض کئے ہو ، دنیا کے جائز کام ، معاش کے مباح طریقے ، سب اختیار کرنے درست ہیں ، لیکن اس طرح نہیں کہ وہی دھندے اصل اور مستقل بن جائیں ، اور یادِخدا پیچھے