میرے نزدیک یہ چیز غلط نہیں ہے ، بلکہ میں اس کو محمود سمجھوں اگر یہ اس نیت سے کیاجائے کہ سرکاری اداروں میں ہمیں دین کی خدمت کے جو مواقع میسر ہوں گے ان سے دریغ نہ کریں گے ، بلکہ سچے دین کی سچی خدمت میں مصروفِ کار رہیں گے ۔ پھر یہی کام ذخیرۂ آخرت بن جائے گا مگر تم جاننے والوں کے احوال کو پرکھو ، جانچو ، دیکھو کتنوں کی نیت یہ رہتی ہے اور کتنے اس قسم کااقدام کرتے ہیں ، تو کیا ایک مسلمان ذی علم کے سامنے حصولِ زر کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہے ، کیا وہ اسی لئے علم دین حاصل کررہا ہے کہ اس کے عوض میں معمولی متاع دنیا خریدے گا ، اگر یہی ہے تو پھر اس میں علمائے یہود میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے، جن کی مذمت قرآن میں تم پڑھ چکے ہو ۔ إشتروا بآیات اﷲ ثمناً قلیلاً
درحقیقت یہ اس دور کا ایک بڑا المیہ ہے کہ وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں زمانے کی باگ ڈور ہونی چاہئے تھی وہ مذہب کی قبا تارتار کرکے اس کی دھجیاں فروخت کررہے ہیں ۔ فواأسفاہ دل جلتا ہے ، طبیعت سلگتی ہے لیکن کون جانے دل کا حال !
میرے عزیزو! یہ سچ ہے کہ معاش کا بحران انسان کو بے رحمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار رہا ہے ، ہر شخص پیٹ کا نعرہ لگارہا ہے ، معاشرہ حصولِ معاش کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان اس طرح پس رہا ہے کہ اس کو اپنے دین وایمان کا ہوش ہی باقی نہ رہا ، یہ مسئلہ اگر صرف ان تک محدود ہوتا جو خدا کی لا محدود قوت پر ایمان نہیں رکھتے تو چنداں قابل تعجب نہ ہوتاکہ ان کا دستور فطرت یہی ہے ، لیکن مصیبت تو یہ ہے کہ اس آتش سوزاں میں وہ لوگ بھی دھڑادھڑ اپنا خرمن ایمان ویقین پھینک پھینک کر جلا رہے ہیں جن کو خدا کی عظیم قوتوں پر بھروسہ کا دعویٰ ہے ۔ اس مصیبت کو کس سے کہوں کہ گھر کاسرمایہ لٹ رہا ہے ، تجوریوں پر ڈاکہ پڑرہا ہے ، جائیداد برباد ہورہی ہے اور