عزیزان من رفیع الدین ، منیر الدین ، عبد الحق وولی محمد
سلمکم اﷲ تعالیٰ وزادکم علماً وفضلاً
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
امیدکہ اچھے ہو گے ، عرصہ سے خط لکھنے کا اراداہ تھا ، لیکن امروز وفردا میں وقت کا کارواں آگے بڑھتا چلا گیا ، پھر میں بنارس پہونچا ، ملاقات ہوئی مگر اس ملاقات سے کیا حاصل جس میں نہ تم کچھ حالات بتاسکے اور نہ میں حدیث ِدردِ دل سنا سکا ، اس بنا پر خط لکھنے کی ضرورت ابھی باقی ہے ۔
میری عین خواہش اوردعا یہی رہی ہے کہ تم لوگ سچے طالب علم بن کر حصول علم میں کوشاں رہو ، علم صرف ذہانت وذکاوت ہی سے نہیں ملتا ممکن ہے دنیا کا علم اسی طرح حاصل ہوتا ہو لیکن جس کو میں علم کہتا ہوں اس کا حساب وکتاب اور ہے ، یہ ضرور ہے کہ ذہانت ممدومعاون ہے ، اس سے راہِ علم میں سلوک کی سہولت ہوتی ہے ، تاہم اس کی حیثیت اَساسی اور بنیادی نہیں ہے ، دین کا علم زیادہ تر خلوص نیت ، عزم وعمل اور مسلسل محنت وکاوش سے حاصل ہوتا ہے ، ہم نے بہت سے ذہین دیکھے ہیں جو درمیا ن میں گرپڑکے ختم ہوگئے، وہ نہ تو اپنے علم سے خود فائدہ اٹھاسکے ، اور نہ ہی دوسروں کو کچھ دے سکے ، اور بہت سے غبی ، کندذہن جن کو حصول علم کے زمانہ میں اساتذہ کے نزدیک بالکل وقعت حاصل نہ تھی ، وہ اپنے اپنے دور کے شمس العلماء بنے ۔
آج ضرورت بہت زیادہ ذہین علماء کی نہیں ، ایسوں کی ضرورت ہے جن کے پاس علم کے ساتھ فراست ایمانی بھی ہو ، اور یہ فراست حاصل ہوگی تصحیح نیت سے ۔ میرے عزیزو! مجھے اس وقت سخت تکلیف ہوتی ہے جب میں سنتا ہوں کہ عربی پڑھنے والا طالب علم کسی سرکاری ملازمت کے لئے جدوجہد کررہا ہے ، یا وہاں چلا گیا ہے ،