جاتے رہے،بالآخر باپ نے تراویح پوری کی، رات ہی میں ساتوں بیٹوں نے جان دیدی،صبح کو ساتوں کا جنازہ ایک ساتھ نکلا،قاری صاحب خاموشی کے ساتھ سر جھکائے جنازہ کے ساتھ تھے،لوگوں میں کہرام مچا ہوا تھامگر یہ خاموش تھے،کسی نے کہہ دیاکہ کتنا سخت دل باپ ہے،سات بیٹوں کا جنازہ جارہاہے اور خود ہر قسم کی کیفیت سے خالی ہے،کتنا بے درد تھا وہ شخص جو باپ کے درد کو نہ پہچان سکا،قاری صاحب نے اسے قریب بلایا اور کھنکھار کر تھوکا تو منھ سے تھوک اور بلغم نہیں صرف خون نکلا،فرمایا کہ جگر خون ہو گیا ہے مگر ا ﷲکا نام اور اﷲ کا حکم سب سے بلند ہے،ہم کو ان کی ہر تقدیر پر راضی رہنا اور ہر مصیبت پر صبر کرناہے۔میں یہ واقعہ بیان کررہا تھااور آپ کے تصور سے میری آنکھوں میں آنسو چھلک رہا تھا،حاضرین کی آنکھوں پر بھی باربار رومال پہونچ رہا تھا،میں دل ہی دل میں دعا کررہا تھا کہ یااﷲ !میرے اختر بھائی اوران کی اہلیہ کو وہی صبر جمیل عطا فرما جو آپ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیا تھا،جس سے حضرت ایوب علیہ السلام کو نوازا تھا، جس سے رسول اﷲا سرفراز ہوئے تھے اور جیسا صبر حضور کے امتی قاری صاحب مذکور نے کیا تھا۔
تا ہم جب اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں سے کچھ لیتے ہیں تو اس سے کہیں بڑھ کر عنایت فرماتے ہیں ،صبر کرنیوالوں کو تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی معیت خاصہ سے نوازا ہے،ارشاد ہے’’انّ اﷲ مع الصابرین‘‘اﷲ تعالیٰ صبر کرنیوالوں کے ساتھ ہے، اور ارشاد ہے’’: وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا ﷲِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ أُوْلٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ ‘‘اے رسول !آپ صبر کر نے والوں کو بشارت سنا دیجئے جو لوگ ایسے ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو بس یہ کہتے ہیں (دل سے بھی اور زبان سے