ہیں ،ہمارا کام ہے سر جھکانااور اطاعت کرنا،انھیں کے نام سے تسلی حاصل کرنا،ان کے نام سے بڑی تسلی حاصل ہوتی ہے۔کل جمعہ بعد میرا وعظ تھا،جمعہ سے پہلے یہ خبر پڑھ چکا تھا۔’’اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِاﷲِ أَلا بِذِکْرِاﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘پر وعظ کہنا تھا، پورے وعظ میں آپ ہی کا تصور چھایا رہا،اور دل کانپتا رہا،میں یہی کہہ رہاتھا کہ مومن اﷲ کے نام پر بڑی سے بڑی مصیبت جھیل لیتا ہے،سب سے آخر ی سہارا اﷲکا نام ہے،اس نام میں وہ برکت ہے کہ جلتا ہوا قلب ٹھنڈا ہوجائے،اسی نام کی بدولت صحابۂ کرامؓ نے حضور اکرم ا کی رحلت کا صدمہ برداشت کرلیا ،ورنہ وہ صدمہ ایسا نہ تھا کہ صحابہ جیسے عشاق اور فداکاروں سے برداشت ہوجاتا ،اسی نام کی برکت سے حضرت خنساءؓ نے اپنے چار جوان بیٹوں کی شہادت کو سہ لیا تھااور اﷲکا شکر ادا کیا تھا،یہی وہ پاک نام ہے جس کے لئے عشاق نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاتھا،اسی نام کا اثر تھاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کیلئے تیار ہوگئے تھے اور بیٹے کے دل میں بھی یہی نام بسا ہوا تھا کہ انھوں نے بخوشی گردن پر چھری پھروانے کے لئے سر جھکا لیا تھا،آہ!!کتنے کتنے صدمے اور کیسی کیسی تکلیفیں اسی پاک نام کی برکت سے جھیل لی گئیں ،میں نے ایک واقعہ بھی سنایا جو حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ نے اپنے مواعظ میں بیان کیا ہے،وہ یہ کہ ایک بزرگ قاری صاحب تھے وہ خود حافظ قرآن تھے اور ان کے سات بیٹے تھے اور سب حافظ قرآن تھے،رمضان المبارک کا مہینہ تھا، طاعون کی وبا پھیلی ہوئی تھی، تراویح ہورہی تھی،ایک صاحبزادہ پڑھارہا تھا،دو ایک رکعت کے بعد تکلیف ہوئی ،وہ اجازت لیکرگھر چلا گیا اب دوسرا مصلیٰ پر آیا اس کی بھی طبیعت خراب ہوئی وہ بھی گھر چلا گیا،پھر تیسرا، پھر چوتھا،اسی طرح یکے بعد دیگرے مصلیٰ پر آتے رہے اور بیمار ہو کر گھر