ایک اور حدیث سنئے !
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ میں نے جناب رسول اﷲ ا کو فرماتے ہوئے سنا کہ حق تعالیٰ جب کسی بندہ کو کسی مصیبت میں مبتلا کرتے ہیں اور وہ اس سے گھبراتا اور پریشان ہوتا ہے تو اس بلا کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنادیتے ہیں ، اور اس کے لئے اس کو طہارت وپاکیزگی کا ذریعہ بنادیتے ہیں ، ہاں شرط یہ ہے کہ وہ اس مصیبت کو غیر اﷲ کی طرف سے نہ سمجھے ،اور نہ اس کے دور ہونے کے سلسلے میں غیر اﷲ سے حاجت روائی کا طالب ہو ، ( ترغیب وترہیب )
یہ مومن کا حال ہے ، نعمت وراحت ہو یا مصیبت وکلفت ، مومن ہر رنگ میں خدا کی مہربانی کا مشاہدہ کرتا ہے ، پھر یہ بھی دیکھئے کہ جن لوگوں نے مصائب پر صبر کیا ، ان کو خدا کی طرف سے سمجھ کر صرف خدا ہی کے لئے جھیل گئے ، کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے ، ان کے سلسلے میں حق تعالیٰ کیا ارشاد فرماتے ہیں اور خدا سے بڑھ کر سچا کون ہوسکتا ہے ؟ فرماتے ہیں کہ :
وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا ﷲِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ أُوْلٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ ، اور صبر کرنے والوں کو بشارت سنادو ( کون صبر کرنے والے ) وہ لوگ جن کو جب کوئی مصیبت پہونچتی ہے تو یہ کہتے ہیں (ایمان اور اعتقاد سے کہتے ہیں ) کہ ہم اﷲ ہی کے لئے ہیں ( یعنی اس کے بندے اور غلام ہیں ) اور ہم کو اسی کی طرف پلٹ کرجانا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے رب کی جانب سے مہربانیاں ہیں اور رحمت ہے ، اور یہ لوگ ہدایت یاب ہیں ۔
سنتے ہیں ! یہ بشارت ، یہ مہربانیاں ، یہ رحمت ، یہ ہدایت یابی کا اعلان کس بنا پر ہے ؟ صرف اس بنا پر کہ انھوں نے اپنے اﷲ کی بھیجی ہوئی مصیبت پر اپنی رضامندی کا اظہارکیا اور صبر وضبط کا عمل کیا ، اﷲ کے ہر تصرف کو اپنے حق میں گوارا کیا، اور دل