وَالْحَیٰـوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً، وہی ذات گرامی ہے ، جس نے موت وحیات کو پید افرمایا تاکہ یہ آزمالے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون شخص بہتر ہے ۔
دنیا کے اس پورے کارخانے میں دو ہی عمل ہورہے ہیں ، اور باقی سب کچھ ان کے متعلقات اور لواحقات ہیں ، ایک پیدا ہونا ، دوسرے مرجانا ، پیدا ہونا تمہید ہے اور مرجانا تکمیل ہے ، جب تمہید مرتب ہوگئی تو تکمیل بھی ناگزیر ہے ، یہ دنیا کی رِیت ہے ، خواہ کسی کو رنج ہو یا کوئی صبر کرے ، لیکن حق تعالیٰ کی اپنے بندوں …مومن بندوں … پر خاص نظر عنایت ہے ، یہ ہے تو ایک فطری اور طبعی عمل ، بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ! اس سے خواہ کسی کے اوپر کچھ ہی کیوں نہ گزرجائے ، لیکن کسی انسان کے رنج واندوہ سے متاثر ہوکر اﷲ تعالیٰ کا قانون نہیں بدلا جاسکتا ، حق تو یہ تھا کہ جو کچھ ہونا ہوتا ، وہ ہوجاتا ، لیکن قربان جائیے رحمت خدا وندی کے کہ اس نے وجود کو بھی انسان کے لئے نعمت بنایا اور موت کو بھی رحمت بنایا ، مومن کے اوپر حق تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ پیش آجائے تلاش کریں گے تو اس میں رحمتِ حق ضرور ہوگی ، سب سے بڑی قیامت جو اس دنیا میں کسی مومن کو پیش آسکتی تھی وہ جناب رسول اﷲ اکی رحلت کا سانحہ ہے ، لیکن رسول اﷲ ا نے مسلمانوں کے لئے اس سانحہ کو بھی رحمت قرار دیا ہے ، پھر اور لوگوں کی موت وحیات کے قصوں میں یقینا رحمت پروردگار کی کار فرمائی ہوتی ہے اور خوب ہوتی ہے ۔ ایک حدیث سنئے !
حضرت صہیب رومی ص روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا کہ مومن کا معاملہ عجیب ہے ، اس کے ساتھ جوکچھ پیش آجائے ، سب میں خیر ہے ، اور یہ بات بجز مومن کے اور کسی کو حاصل نہیں ، اگر اس کو خوشحالی اور مسرت نصیب ہوتو شکر کرتا ہے ، پس یہ اس کے حق میں بہتر ہے ، اور اگربد حالی اور رنج سے دوچار ہوتا ہے تو صبر کرتا ہے ، پس یہ اس کے حق میں بہتر ہے ۔ ( مسلم شریف )