سبق پڑھارہا تھا ، وہ بھی ادھورا رہ گیا ، جب مجھ پر اتنا اثر ہے ، تو اﷲ ہی جانتا ہے کہ تم پر کتنا اثر ہوگا ۔
اچھا درد کی داستان کو یہیں چھوڑو ، اور وہاں چلو جہاں سب کو تسلی ملتی ہے ، جہاں سے ہمارے ایمان کا دامن وابستہ ہے ۔ دیکھو یہ مدینہ شریف کی بستی ہے ، جہاں ہر دم رحمت برستی ہے ، یہ بزمِ رحمت آراستہ ہے ، اس بزم کے ایک رُکن حضرت اُسامہ بن زید ہیں ، اسی بزم میں حضرت(ﷺ) کی ایک صاحبزادی قاصد بھیج رہی ہیں کہ میرا ایک ننھا سا بچہ دم توڑ رہا ہے ، آپ تشریف لائیں ، آپ نے سلام کہلوایا ، اور یہ پیغام بھیجا ، پیغام کیا ہے ، تسلی واطمینان کا سامان ہے ۔ فرمایا : إن ﷲ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ ، وکل عندہ بأجل مسمیٰ، فلتصبر ولتحتسب ، دیکھو جو کچھ اﷲ نے لے لیا وہ بھی انھیں کا تھا ، اور جو کچھ انھوں نے دیا وہ بھی انھیں کا ہے ، اور ہر چیز کا ان کے نزدیک ایک وقت مقرر ہے ، اس لئے صبر کرو اور اجر کی امید رکھو ۔ سب سے بڑا پیغمبر ، اﷲ کا سب سے زیادہ محبوب ، اﷲ کی چوکھٹ پر سر رکھے صبر واحتساب کی تلقین فرمارہا ہے ، اور بجز اس کے چارہ بھی کیا ہے ؟ اﷲ کا محبوب بھی اﷲ کے تصرف کو روک نہیں سکتا ، یہاں سر تسلیم خم کرنا ہی عبادت ہے ۔
اب چلو حضور (ﷺ)کے ساتھ، حضور کے فرزند دلبند جو بہت عرصے کے بعد پیدا ہوئے تھے ، اور گھر کے چراغ بننے کی ان سے امید تھی ، ان سے پہلے جتنے فرزند ہوئے تھے ، سب آغوشِ رحمت میں جاچکے تھے ، اب یہ آخری شمعِ امید تھی ، اور وہ بھی رسول اﷲ ا کی آغوشِ محبت میں جھلملا جھلملا کر بجھ رہی تھی ، آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے ، اور آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا ہورہے تھے : إن العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول إلا ما یرضی ربنا وإنا بفراقک یا