برادرِعزیز! عافاکم اﷲ ورزقکم صبراً جمیلاً وآتاکم أجراً جزیلاً
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
پرسوں سے میرے دل ودماغ پر ’’ محمد رحمت اﷲ ‘‘ چھایا ہوا تھا ، ذہن وقلب سے کسی وقت اس کا تصور ہٹتا نہیں تھا ، دل بھی دعاء میں مشغول تھا ، زبان بھی دل کی موافقت میں ہلتی رہتی تھی ، اس کے پیچھے والدین کا قلب بھی نظر آتا رہتا تھا ، امید وبیم کی پرچھائیاں آتی جاتی محسوس ہوتی رہتی تھیں ، دل کی دھڑکن کبھی بڑھ جاتی تھی ، کبھی سکون کی ٹھنڈی ہوا چل جاتی تھی ، میری نگاہِ تصور ان دونوں کیفیات کو تم لوگوں کے دلوں میں مسلسل دیکھ رہی تھی ، اور مضطرب ہوہوکر بارگاہِ الٰہی میں التجا کرتا رہتا تھا کہ یااﷲ! اس بچے کو والدین کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنائے رکھئے ۔ کبھی لگتاتھا کہ دعا قبول ہورہی ہے ، اور کبھی محسوس ہوتا تھا کہ بہت سا اجروثواب لے کر پلٹ رہی ہے ، امید وبیم کی پرچھائیاں کبھی نور پھیلاتیں ، کبھی اندھیری چادر تانتیں ، چوبیس گھنٹے یونہی گذرے ، مغرب کے بعد ذکر کرنے بیٹھا ، اور ذکر کے بعد بے ساختہ زبان سے دعا نکلی کہ اﷲ ! آپ مردوں کو زندہ کرتے ہیں ، اس روح کو یہیں لوٹادیجئے ، دل میں فون آچکا تھا کہ بچہ کی روح اس کے ننھے بدن کی قید سے آزاد ہوکر آغوشِ رحمت کی وسعتوں میں تیر رہی ہے ، کمرہ میں آیاتو عابد نے خبر دی ، خبر کیا دی دل میں آئی ہوئی خبر کی تصدیق کی ، اب کیا کرتا ، رضا بالقضاء کا سبق ایک عرصہ سے دہرا دہرا کر یاد کررہا ہوں ، اسی میں مشغول ہوا ، اور تمہارے لئے اور تمہاری اہلیہ کے لئے اور سب اہل خاندان کے لئے دعا کرنے لگا ، پھر سلیم (پپو)کا فون آیا ، آواز رُندھی ہوئی تھی ، صدمہ سے چُور، غم میں ڈوبی ہوئی ، بس کچھ نہ پوچھو ، مجھے بھی ہلاکر رکھ دیا ، مگر جو سبق دہرا رہا تھا دہراتا رہا ، لیکن بدن سست ہوگیا ، دل کا درد پورے بدن میں پھیل گیا ،مشکوٰۃ شریف کا