ایک قدم کے رکھنے میں کوتاہی نہ ہو ، اور غیر کی دید ودانش میں گرفتار نہ ہو ۔
توفیق وسعادت کی گیند سامنے موجود ہے ، شہ سواروں کو کیا ہوا کہ میدان میں نہیں اترتے۔
آج کس کو یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے ، کہ دل جب ذکر میں منہمک ہوتا ہے ، ایسی ذات کے ذکر میں جس پر ایمان محض غیبی راہ سے ہے ۔ اسی کے ذکر میں جب ڈوبتا ہے ، تو اتنا ڈوبتا ہے کہ اس کے علاوہ سے تعلق حبی تو درکنار اس کے ساتھ علم ودانش کا تعلق بھی باقی نہیں رہتا ۔ ماسواکو ایسا بھولتا ہے ،اس درجہ فراموش کرتا ہے کہ یاد دلانے سے بھی یاد نہیں آتا، اگر یہ کیفیت کسی کو حاصل ہوگئی تو اس راہ کا ،سمجھنا چاہئے کہ پہلا قدم رکھا ہے ، اور پھر اسی پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے ۔بس ایک قدم اور رکھنا چاہئے ، اور اس میں آدمی کو کوتاہی نہ کرنی چاہئے ، بتائیے ! کس کو یقین آئے گا کہ آدمی کو یہ مقام بھی حاصل ہوسکتا ہے ، لیکن سچ ہے اور بالکل سچ ہے ۔ آج نمونے اور مثالیں نہیں ہیں ، اس لئے سمجھ میں آنا دشوار ہے ، کل تک نمونے تھے ، مثالیں تھیں تو ہر شخص نہ صرف یہ کہ سمجھتا تھا …بلکہ یقین کرتا تھا … کیونکہ آدمی عقلی نظریات کو رد کرسکتا ہے ، لیکن مشاہدات کو کیونکر جھٹلائے گا ۔ ہائے کل یہی بات مشاہدہ تھی ، آج نظریہ ہے ۔
میرا مطلب یہ ہے کہ جس کو حق تعالیٰ نے شوق وذوق عطا کیا ہے ، اوراس قسم کی استعداد بنائی ہو، اس کے قلب میں اپنی محبت ومعرفت کی قندیل جلائی ہو ، اس کو اس سلسلے میں کوتاہی نہین کرنی چاہئے ۔ آج دین ، اور دینی اعمال غریب الدیار اور اجنبی بن کر رہ گئے ہیں ۔ لیکن سنئے کہ وہ جن کی زبان پر صدق وراستی کا نزول ہوا تھا ،