ان کی زبان صدق ترجمان نے ان اجنبیوں کو بشارت سنائی ہے : فطوبیٰ للغرباء ، ہم کو اجنبی بننے کی ضرورت ہے، اگر دنیا کی نگاہوں نے ہمیں اجنبی نہ سمجھا ، یا اجنبیت میں انھیں کمی محسوس ہوئی تو سمجھ لیجئے کہ اسی کے بقدر ہمارے اندر روحِ دینی کی کمی ہے ۔ ہمیں دنیا والوں کے ساتھ سازگاری نہیں کرنی چاہئے ، ناسازگاری درکار ہے ، جس قدر آدمی اعمال دنیاوی میں لگے گا ، اسی قدر دنیا سے موافقت حاصل ہوگی ، اور اس کی اجنبیت میں کمی ہوتی چلی جائے گی ، اور جس قدر اعمال دینی میں انہماک رہے گا ، اسی مقدار سے دنیا والوں کی نگاہ میں اوپرا اور اجنبی محض ہوتا چلا جائے گا ۔ اس معیار پر ہم اپنے کو پرکھ سکتے ہیں ، بہر کیف ہمیں اپنے محبوب کی رضاء مقصود ہے ، وہ جس راہ سے حاصل ہو ، اسے حاصل کرنا چاہئے ۔ سر دینا پڑے ، عزت وآبرو کی بازی بدنی پڑے ، مال ودولت کو آگ لگانی پڑے ، اگر اس کی رضاء حاصل ہوتو ہر سودا سستا ہے ۔
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ ، مجھے کام ہے اپنے کام سے
ترے ذکر سے ترے فکر سے ، تری یاد سے ترے نام سے
ہاں اور سنئے ! اگر اس راہ پر ہم لوگ محض چل پڑیں ، منزل پر پہونچنے کی بات نہیں کرتا ، محض قدم اٹھاکر پیش رفت کردیں ، محض اتنے ہی سے تمام ’’ذہنی الجھاؤ‘‘ سلجھ جائیں گے ، پھر فراغت قلبی حاصل ہوجائے گی ۔
بس صاحب ! اب دوسرے کام کا وقت آگیا ، آپ کی چند سطریں آئیں گی ، تو پھر کچھ لکھوں گا۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲۸؍ ربیع الاول ۱۴۰۵ھ
٭٭٭٭٭