٭صرف ’’الااﷲ‘‘ باقی رہا ، باقی سب چلاگیا ، شاباش! اے عشق شرکت سوز!شاباش!۔
بھلا بتائیے، کہ آپ کیونکر یہ سمجھا سکتے ہیں کہ بیٹے کی وفات پر محض اس لئے ذوقِ لذت حاصل ہورہی ہے کہ یہ فعل محبوب ہے ، کون یقین کرے گا ۔ جب نمونے بکثرت تھے ، تو ہر شخص مانتا تھا ، اب مثالیں نہ رہیں تو تصور بھی مشکل ہوگیا ۔ مزید سنئے ! ایک خط میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’ نصیحتے کہ باخوی خواجہ محمد گدا نمودہ می آید بعد تصحیح عقائد کلامیہ وبعد اتیان احکام فقہیہ ، دوام ذکر الٰہی ست جل سلطانہ ، بر نہجے کہ یاد گرفتہ اند ، باید کہ ذکر آں قدراستیلا یابد کہ غیر مذکور در باطن نگذارد وتعلق علمی وحبی را از ما سوائے مذکورہ زائل گرداند ، ایں زماں قلب را نسیانے از ماسوا حاصل گردد ، از دیدودانش غیر فارغ شود ، کہ اگر بہ تکلف وتعمل اشیاء را بوے یاد دہند ، یاد نہ کندو نشناسد ہموارہ مستغرق ، مستہلک مطلوب بود ، چوں معاملہ تا باینجا رسد یک گام دریں راہ زدہ باشد ، سعی نمایند کہ از یک گام کو تہی نکنند وبدید ودانش غیر گرفتار نمانند۔
گوئے توفیق وسعادت درمیان افگندہ اند کس بمیداں در نمی آید سواراں را چہ شد
(مکتوب : ۴۹،دفتر دوم)
ترجمہ: میرے بھائی خواجہ محمد گداکو نصیحت کی جاتی ہے کہ عقائد کی تصحیح اور احکام فقہیہ کی تعمیل کے بعد ذکر الٰہی پر مداومت کریں ، اسی طریقہ پر جو انھوں نے یہاں سیکھااور یاد کیا ہے ، ذکر کا اتنا تسلط ہونا چاہئے کہ مذکور کے علاوہ دل میں کسی اور کو نہ چھوڑے ، مذکور کے ماسوا ہر چیز سے علمی اور حبی تعلق ختم کردے ، اس وقت قلب کو ماسواسے نسیان حاصل ہوجاتا ہے ، اور دوسروں کی دید ودانش سے فارغ ہوجاتا ہے، کہ اگر بتکلف بھی وہ اشیاء یاد دلائی جائیں ، تو یاد نہ آئیں ، ہمہ وقت مطلوب ومقصود میں فنا اور مستغرق رہے ، جب معاملہ یہاں تک پہونچ جائے ، تو( سمجھنا چاہئے کہ) بس ایک قدم ابھی اس راہ میں چلا ہے ، کوشش درکار ہے ، اس