صاحبزادے کی وفات پر انھیں جو تعزیت نامہ لکھا ہے ، اس کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں :
’’ خبر فوت قرۃ العین محمد صدیق نوشتہ بودند إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔ برادر عزیز! حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نزدِ مومناں از ہمہ چیز عزیز تر ومحبوب تر ست ، چہ اموال وچہ انفس واحیاء واماتت فعل او تعالیٰ کہ دیگر ے را در وے مدخلے نیست ، پس ناچار فعل او تعالیٰ نیز عزیز تر ومحبوب تر خواہد بود ، جائے آنست کہ محباں از فعل محبوباں لذت بگیرند وعیش نمایند ، بصبرچہ دلالت کند ،کہ ایمائے بکراہت دارد ، مقام رضاء ہر چند از رغبت وسرور خبر می دہد اما مرتبۂ ا لتذاذ امرے دیگر ست ؎
عشق آں شعلہ است کہ چوں برفروخت ہر چہ جزمعشوق باقی جملہ سوخت
تیغ لا در قتل غیر حق براند در نگر دل پس کہ بعد لاچہ ماند
ماند إلا ا ﷲ باقی جملہ رفت شاد باش اے عشق شرکت سوز رفت
(مکتوب :۴۸ ، دفتر دوم)
ترجمہ: قرۃ العین محمد صدیق کے حادثہ ٔ وفات کی خبر آپ نے لکھی ہے ، إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون برادرِعزیز! حضرت حق سبحانہ تعالیٰ مومنوں کے نزدیک ہر چیزسے بڑھ کر عزیز ومحبوب ہیں ، کیا مال اور کیاجان ؟ اور زندگی بخشنا اورموت دینا انھیں کاکام ہے ، دوسرے کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے ۔ لہٰذا حق تعالیٰ کاکام بھی عزیزتر اور محبوب تر ہوگا ۔ مناسب یہ ہے کہ محب اپنے محبوب کے کام سے لذت حاصل کرے اور راحت محسوس کرے ، صبر کی تلقین کیا کی جائے ، کہ اس میں ناگواری کا اشارہ ملتا ہے ، رضاکا مقام اگرچہ رغبت اور سرور کی خبر دیتا ہے ، لیکن لذت پانے کا مرتبہ ایک دوسرا امر ہے ۔
٭عشق وہ شعلہ ہے کہ جب روشن ہوتا ہے تو معشوق کے علاوہ سب کو پھونک کر رکھ دیتا ہے۔
٭اس نے غیر حق کو قتل کرنے کیلئے ’’لا‘‘ کی تلوار چلائی ، پھر دیکھو کہ ’’لا‘‘ کے بعد دل میں کیا باقی رہا