کررہا ہے اور اس کا کرنا ضروری ہے ۔ آج دنیا میں ہرچیز کی کثرت ہے ، اگر کمی ہے تو ذکر وطاعت کی ، ورع وتقویٰ کی ، اعتماد وتوکل کی ، فراغت قلبی کی ، اگر اس دولت سے مالامال چند لوگ بھی نہ رہیں تو دنیا کسی طرح نہ مانے گی کہ یہ بھی کوئی چیز ہے ، نمونوں کی کمی کی وجہ سے کتنے دینی حقائق انکار وتردید کی زَد میں آچکے ہیں ۔ پرانے بزرگوں کے مقاماتِ عالیہ آج کسی سمجھانا بھی چاہیں تو نہیں سمجھا سکتے ۔ دیکھئے امامِ ربّانی حضرت مجددِ الفِ ثانی قدس سرہٗ اپنے ایک مرید کو لکھتے ہیں :
معرفتِ خدا برآں کس حرام کہ برابر خردلہ ، درباطن او ،محبت دنیا بود ، یا باطن اورا ، ایں قدر تعلق بدنیا باشد ۔ یا ایں قدر مقدار خاطرے از دنیا در باطن او خطور کند ،مکتوب :۳۸،دفتر دوم
(ترجمہ: خدا کی معرفت سے وہ شخص محروم ہے ، جس کے قلب وباطن میں رائی کے برابر دنیا کی محبت ہو ، یا اس کے باطن کو دنیاسے اتناسا بھی تعلق ہو ، یا دنیا کی اتنی مقدار اس کے دل میں گزر کرے )
غور کیجئے ! آپ آج کسی کو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ دنیا میں ایسے افراد بھی ہوسکتے ہیں ، جن کے دل میں رائی کے برابر دنیا کی محبت نہیں ہوتی ، نہ دنیا سے تعلق ہوتا ۔ اور محبت وتعلق تو درکنار ، رائی کے برابر دنیا کا خطرۂ وخیال بھی ان کے قلب میں نہیں گذرتا۔ دنیا نمونہ مانگے گی ، آپ کس کو پیش کریں گے ، تو کیا یہ حقیقت نہیں افسانہ ہے ۔ کلا وحاشا ، ایسا ممکن ہے ، اور ممکن ہی نہیں واقع ہے ۔ ایسے اشخاص ہوتے ہیں ، لیکن بہت نادر ، اور پہلے بہت ہو اکرتے تھے ، اس لئے کسی کو اس کی صداقت پر شبہ نہیں ہوتا تھا ۔ آج لوگ انکار کردیں گے ۔
اور سنئے ! حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے اپنے ایک خلیفہ کے