آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مصروفیات کی کثرت کے باعث ذہن کو کاوش فکر کی فرصت نہیں ملتی ۔ اس لئے قلم اور کاغذ بہم جمع نہیں ہوپاتے ، اور جواب میں دیر لگتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ لکھنے کے لئے ذہن ودماغ کوکچھ فرصت درکار ہوگی ۔ اور وہ آپ کے اوقات میں عنقاہے ، یہ بالکل صحیح ہے ، اگر اسی کو ذہنی الجھاؤ سے آپ نے تعبیر کیا ہے تو گوکہ آپ اس میں معذور ہیں ، مگر میں نہایت ادب سے یہ عرض کرنے کی جرأت کروں گا کہ یہ مصروفیات کس قبیل کی ہیں ؟ اگر ایسی مصروفیات ہیں جو آپ کے لئے یادِحق میں معین بنتی ہیں ، یا خود ذکرِ الٰہی کی مشغولیات ہیں ۔ تب تو سبحان اﷲ ، ماشاء اﷲ ! مقصد زندگی ، حاصل عمر اور سرمایۂ روزگار یہی ہیں ۔ان مصروفیات کو کم کرنا کیا معنی ؟ بڑھاتے رہنا چاہئے کہ دل میں یادِ الٰہی کے علاوہ کسی اور چیز کا گذر تک نہ رہے ۔ دل معرفت ومحبت کا مرکز ہے ، اس میں صرف یہی سرمایۂ گراں قدر ہونا چاہئے ، باقی سب فضول ہے ۔ لوہا اگر آگ میں ڈال دیا جائے اور آگ کو خوب دھونکا جائے تو تھوڑی دیر میں لوہا غائب ، صرف آگ ہی نظر آئے گی ، یوں ہی سمجھ لیجئے کہ دل کو ذکرِ الٰہی کی حرارت میں اتنا تپایا جائے دل غائب ہوجائے ، صرف ذکر ہی رہ جائے ۔
لیکن اگر مصروفیات اس کے علاوہ ہیں تو ہر وہ چیز جو مانع عن ذکر الحق ہو اس کی تقلیل ضرروی ہے۔ آپ جیسے اصحاب کے لئے ہرگز مناسب نہیں ہے کہ فضولیاتِ دنیا میں مشغول رہ کر دل کو تشویشات کا نشانہ بنائیں ۔ کارِ دنیا کو خدا پر چھوڑیں ، جس سے منظور ہوگا وہ یہ کام لے لیگا ، ہمیں تو آنکھیں بند کرکے ، اسی کے دامن سے وابستہ رہنا چاہئے ۔ دنیا کاکام کرنے والے بہت ہیں ، محض اﷲ کا اور محض اﷲ کے واسطے کام کرنے والے کتنے ہیں ۔ آپ کے اندر اس کی استعداد ہے ، جو کام دوسرے لوگ انجام دے سکتے ہیں ، اس میں آپ کیوں دخل دیں ؟ آپ تو وہ کام کیجئے جو کوئی نہیں