اعجاز احمد اعظمی یکم ؍ ربیع الآخر ۱۴۰۵ھ
٭٭٭٭٭
برادر گرامی مرتبت! زادکم اﷲ علماً وکرامۃً
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
مزاجِ گرامی!
میں خط لکھ کر جواب کا انتظارکررہاہوں ، مختلف خیالات دل میں آتے ہیں ، کبھی سوچتا ہوں ، کہ شاید خط نہیں ملا ، پھر جی میں آتا ہے کہ اگرنہ ملتا تو آپ تقاضا کرتے ،کبھی خیال آتا ہے کہ اس خط میں میں حد ادب کو پھاند گیا ہوں ، کہیں ا س کی وجہ سے کبیدگی ہوئی ہو ، اور آپ نے ترک جواب کا ارادہ کرلیا ہو ، لیکن اس خیال کی تردید خود بخود ہوجاتی تھی ۔ بھلا محبت وتعلق میں ایسا کب ممکن ہے ، محبت کسی رنگ میں ہو ، گستاخی کی صورت میں ہو ، نیازمندی کے روپ میں ہو ، ناز کے انداز میں ہو ، شکایت کے لباس میں ہو ، بہر صورت قابل قبول ہے ۔ اسے ٹھکرایا نہیں جاسکتا ، اور آپ جیسا دلدادۂ عشق ومحبت؟ بھلا اس خیالِ ناروا کا تصور بھی آسکتا ہے ؟ مگر کیا کیجئے عشق است وہزار بدگمانی ؟ آج آپ کا خط آیا ۔ جان میں جان آئی ، چمن دل میں بہار آئی ، محبت میں تازگی پیدا ہوئی ، دل میں نیا جوش نئی سرمستی موجزن ہوئی ۔ آپ لکھتے رہئے، مجھے انتظار رہتا ہے ۔ چندلفظ لکھئے ،دو سطریں لکھئے ، محبت حدود وقیود کی پابند نہیں ، میری محبت بہت دراز نفس ہے ، اس میں طول وعرض ہے ۔ آپ کی محبت اتھاہ ہے ، طول وعرض چاہے کم ہو ، لیکن عمق اس قدر ہے کہ اس کی تہ تک کم از کم میں تو نہیں پہونچ سکتا۔ آپ کے چند حروف میرے لئے کافی ہیں ۔
آپ نے اپنے اس خط میں ’’ ذہنی الجھاؤ‘‘ کا ذکر کیا ہے ۔ میرے خیال میں