بس وہی ہمارا سب کچھ ہے ، اور کوئی کچھ نہیں ۔ آپ خفا نہ ہوں ، معلوم نہیں کیا کیا لکھ دیا ہے ۔ غلطی ہوئی ہوتو معاف کردیں ، اور دعاء کردیں ۔ فقط والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۱؍ صفر ۱۴۰۵ھ
٭٭٭٭٭
برادرِ مکرم ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
مزاجِ گرامی !
اس سے پہلے والے خط میں ، امامِ ربانی حضرت مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ کے مکاتیب سے کچھ اقتباسات میں نے نقل کئے تھے ۔ ابھی مطالعہ کے دوران ایک مکتوب شریف نظر سے گذرا ، سوچا کہ آپ کو لکھ بھیجوں ، شاید ہم دونوں کو نفع پہونچے ، اصل عبارت کے بجائے ترجمہ پر اکتفا کرتا ہوں ۔
’’ آدمی کو امراضِ ظاہری میں سے کوئی مرض لاحق ہوتا ہے ، یا اس کے عضو ظاہر پر کوئی آفت پڑتی ہے ، تو اس کے لئے آدمی اتنی محنت وکوشش کرتا ہے کہ بالآخر وہ مرض دور ہوجاتا ہے ، اور وہ آفت زائل ہوجاتی ہے ، مرضِ قلبی جو نام ہے ، ماسوائے حق جل وعلا کے ساتھ گرفتاری کا ، اس طور سے آدمی پر تسلط اور غلبہ پائے ہوئے ہے کہ عجب نہیں کہ اسے دائمی موت کے گڈھے میں ڈھکیل دے اور سرمدی عذاب میں گرفتار کرادے ، لیکن اس کے ازالے کی کوئی فکر اور اس کے دور کرنے کی کوئی کوشش کام میں نہیں لائی جاتی ۔ اگر کوئی شخص اس گرفتاری کو مرض نہیں سمجھتا تو وہ ’’ سفیہ محض ‘‘ ہے ، اور اگر مرض سمجھتے ہوئے کچھ اندیشہ نہیں کرتا تو وہ ’’ پلید صرف ‘‘ ہے ، البتہ اس مرض کے اِدراک کے واسطے عقل معاد درکار ہے ۔ عقل معاش اپنی کوتاہ اندیشی کے باعث محض ظاہر بینی تک محدود رہتی ہے ، اور جیسا کہ عقل معاش لذاتِ فانیہ سے لطف اندوزی کے باعث امراضِ باطنی کو مرض نہیں سمجھتی ، اسی طرح عقل معاد بھی ثواب آخرت کو پیش نظر رکھنے کی وجہ سے امراضِ