ونیاز اپنے آقا ومولیٰ کی تابعداری میں اس کریم کے دروازے پر پیشانی رکھنی چاہئے ۔
میں آپ سے کیا کہوں ، آپ نے طلبہ کی مالیات کا بکھیڑا اپنے سر لے رکھا ہے ، سوچئے تو سہی ! یہ طلبہ بھی مخلوق ہیں اور ان کے اموال بھی مخلوق ہیں ، اور یہ بھی سچ ہے کہ إتصالک بالحق بقدر إنفصالک عن الخلق ، پھر آپ بتائیے کہ مخلوقات کے ان بکھیڑوں میں پڑ کر خالق سے بے توجہی کیونکر روا ہوگی ، آپ کہیں گے کہ طلبہ کی تربیت کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے ، میں عرض کروں گا کہ ایسی تربیت میں آگ لگائیے جو اپنے محبوب سے مانع بن جائے ، پھر تربیت کون کرتا ہے ؟ ہم اور آپ ؟ کلا وحاشا ہم سے کچھ نہیں ہوسکتا ، خالق عزوجل ہی مربی ہیں ہم صرف راستہ بتادیں ، باقی ذمہ داری اپنے سر کیوں اوڑھیں ، ان کا جی چاہے جنت میں لے جائیں ، ان کا جو جی چاہے کریں ۔ آخر ہمارا نفس اور ہمارا دل بھی اپنا حق رکھتا ہے یا نہیں ! خدمت خلق وہی معتبر ہے جس کا رشتہ خدمت خالق سے اُستوار ہو ، ورنہ خدمت خلق محض فریب نفس اور کید شیطان ہے ، میرے بھائی ! مجھ پر خفا نہ ہوں ، جو چیزیں یادِ الٰہی سے مانع ہوں ان پر میرا غصہ بجا ہے ۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناؤں ! حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ کی خدمت میں ایک بنکر بیچارہ سال بھر میں ایک بار آیا کرتا ، اور کچھ دن خانقاہ میں قیام کرتا ، اور جب آتا حضرت کے لئے ایک لنگی بُن لایا کرتا ، ایک سال وہ نہیں آیا ۔ دوسرے سال جب حاضر خدمت ہوا تو خواجہ صاحب نے دریافت فرمایا ، کیوں جی ؟ ایک سال کا تم نے ناغہ کردیا ۔ عرض کیا :حضور لنگی تیار نہ تھی اس لئے حاضر خدمت نہ ہوسکا ، خواجہ صاحب نے فوراً لنگی میں آگ لگادی ، اور فرمایا جو چیز محبوب سے ملاقات میں مانع بنے ، اس کے ساتھ یہی سلوک کرنا چاہئے ، اب خبردار لنگی مت لانا ، کسی نے بہت خوب کہا ہے ۔ ؎