جو بھی طور ہو ، جو بھی طریقہ ہو ، بس اسی کی دُھن لگی رہے ، اور جو چیز اس کی یاد میں روڑا بنے اسے ٹھوکر مار کر ہٹادیں ، کاروبارِدنیا میں اگر حق تعالیٰ کی اطاعت ہو تو یہ بھی ذکر الٰہی کا ایک فرد ہے ، لیکن پروردگار نے اس کو اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں سمجھا ہے کہ دنیا کے کاموں میں ہماری اطاعت کرتے رہو اور بس ! دیکھئے حضور جناب نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک ایک لمحہ دین حق کی دعوت وتبلیغ میں صرف ہوتا تھا ، آپ کی زندگی میں کوئی ایسی ساعت نہیں آتی تھی جو ذکر الٰہی سے خالی ہوتی ہو ۔ ہمہ وقت ، ہمہ تن مصروفِ یاد ، لیکن دیکھئے تو سہی ، یہ یاد مخلوق کے اختلاط کے ساتھ تھی ، خدا کو اتنی ہی یاد منظور نہیں ہے وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ میرابندہ کچھ ایسا وقت بھی دے جس میں میرے اوراس کے سوا کوئی نہ ہو ۔ اِدھر سے عبادت خالص حضوری کی ہو، اُدھر سے عنایت والتفات بے آمیز ہو ۔ اُسی کے لئے کبھی قم اللیل فرماتے ہیں ، اسی مقصد کے لئے کبھی فإذا فرغت الخ فرماتے ہیں کہ جب مخلوق کے کاموں سے فراغت ہوجائے تو اپنے آپ کو تھکاؤ اور اپنے رب کی جانب رغبت سے آؤ ، اس لئے بات صاف یہ ہے کہ جہاں اور سب کاموں کو ضروری یا غیر ضروری سمجھ کر کیا جاتا ہے ،وہیں چوبیس گھنٹہ میں ایک دو گھنٹہ ایسا بھی ہونا ضروری ہے جس میں صرف بندہ ہو اور اس کا خدا ہو ، درمیان میں کوئی حجاب نہ ہو ، کہاں کی مصروفیت اور کہاں کی مشغولیت سب کو ٹھکرا کر خلوتِ محبوب میں جاحاضر ہوں ۔ سب کاروبارِ دنیا سے کہہ دیں کہ اب ٹھہرو ، ہم کاسۂ گدائی لے کر ’’ درِ کریم ‘‘ پر حاضری دینے جارہے ہیں ، اب تمام مشاغل ہمارا انتظار کریں ۔ خدا کی قسم جب تک ایسا نہ ہو جینے کا لطف نہیں ۔ وہی لمحہ اصل قیمت رکھتا ہے جو محبوب کی مجالست میں بسر ہوجائے ، آپ اپنی مصروفیات کو خواہ کم کریں یا نہ کریں ، لیکن ہمارا پروردگار جب ہمارے پیغمبر سے اتنا وقت لے چکا ہے ، تو ہم کو بھی بصد شوق