محبی ومحبوبی فی اﷲ ! عافاکم اﷲ ورزقکم توفیقاً وکرامۃً
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
مدتِ درازکے بعد جانب غرب سے نسیم محبت چلی ہے ، دل کی کلی کلی کھل گئی ، آپ کے ہر ہر لفظ میں محبت کی خوشبو محسوس ہوئی ، اور محبت واُلفت وہ مسیحا ہے جس سے مردے بھی جی اٹھیں ، کاش آپ اور لکھے ہوتے اور بوئے اُنس پھیلتی چلی جاتی ، لیکن کیا ہوا بار بار پڑھ کر قند مکرر کا لطف حاصل کررہا ہوں ۔ آپ کی یاد سے دل کو زندگی حاصل ہورہی ہے ۔
میرے دوست! آپ نے جس پریشانی کا ذکر کیا ہے ، یہ آپ کے احساس کے صحیح اوردرست ہونے کی علامت ہے ، لیکن آپ نے اتنی مصروفیات اپنے اوپر اوڑھ رکھی ہیں ، جو آپ کے قلب کو ، آپ کے وقت کو پراگندہ اور منتشر کردیتی ہیں ۔ محبوبِ حقیقی کی یاد یکسوئی چاہتی ہے ، اور مشاغل دنیا موجب تشتت ہوتے ہیں ، دونوں میں مصالحت بغایت دشوار ہے ، ایک طرف آپ کا قلب ہے جو یادِ الٰہی کی غذا کا طالب ہے جسے بھوک ہے تو محض اس کی کہ ذکر خدا وندی میں محو ومستغرق رہے ، اور دوسری طرف کاروبارِ مدرسہ ہے جو صرف اعضاء ہی کو اپنی طرف نہیں کھینچتا بلکہ دل کو بھی پوری طرح اپنے اندر جذب کرلینا چاہتا ہے ، اسی کشمکش میں آپ پریشان ہوتے ہیں ، کبھی ذکر شروع کرتے ہیں جب قلبی تقاضا غالب آتا ہے ، اور کبھی مصروفیات اس سے طبیعت کو ہٹادیتی ہیں ، آپ دونوں کو نباہ رہے ہیں اور پریشان ہوتے ہیں ۔
اب میری سنئے ! گو مہمل ہوں ، پاگل ہوں ، سنکاہوا ہوں ، لیکن بات کہوں پتے کی ، وہ یہ کہ ہماری ، آپ کی اور ساری کائنات کی تخلیق صرف اور صرف اس لئے ہے کہ اپنے خالق ومالک ، اپنے آقا ومولیٰ ، اپنے رب اور خدا کی یاد میں لگے رہیں ۔