اور فنا درفنا نظر آتی ہے ، وہ اپنے اندر کوئی جمال وکمال نہیں دیکھتا ، زمین روشن ہوتی ہے ، تو یہ سورج کا پرتو ہے ، ورنہ زمین اپنی ذات کے لحاظ سے محض تاریک ہے ، یہی حال مخلوقات کا ہے ، وہ محض عدم ہیں ، وجود کی تجلی محض عنایت ربّانی ہے ۔ اسی لئے عارف اپنی ذات سے یکسو ہوکر محض باری تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، اپنے اندر جھانکے تو اسے کیا سجھائی دے ، وہاں بھی حق تعالیٰ ہی کی تجلی دکھائی دیتی ہے ، پس وہ سوجان سے عاشق ہوجاتا ہے ، اور عشق است وہزار بدگمانی ! اس کو اپنی ذات سے بے زاری محسوس ہوتی ہے ، وہ جلوۂ ربّانی میں محو ہوجاتا ہے ۔
مبارک ہو کہ آپ کو معرفت کی تجلی حاصل ہوئی ، یہ آپ کو اور آپ کی ذات کو سوخت کردے گی ، فنا کردے گی ، پھر صرف وہی باقی رہے گا ، جسے باقی ہی رہنا ہے ، اے اﷲ اس کا کچھ حصہ اس ناکارہ وآوارہ اور گرفتارِ نفس امّارہ کو بھی عطا ہو ۔
انیس بھائی ! اور سنئے ! آپ نے لکھا ہے کہ :
’’ جب کسی عالم دین کا ذکر آتا ہے ، تو فوراً آپ کی صورت سامنے آجاتی ہے ، حالانکہ میری اتنی عمر علماء ہی کی صحبت میں گذری ہے ، لیکن عالم دین کا تصور جب بھی ہوتا ہے ، تو آپ کی ذات سے شروع ہوتا ہے اﷲجانے کون سا جادو آپ نے کردیا ہے ‘‘
میں اس کی تصدیق کرتا ہوں ، حالانکہ میرا ضمیر میرے قلم کو پکڑ رہا ہے کہ اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہو ، لیکن یہ محبت کا اظہار ہے ،ا س کی تصدیق نہ کرنا محبت کی توہین ہے ، یہ میرا جادو نہیں ہے ، آپ کی قلبی محبت کا کرشمہ ہے ، ہاں یہ ہے کہ میرے دل میں آپ کی جو محبت ہے ،اس سے اس کو آب وتاب ملتی ہے ، مجھے جب محبت کا تصور ہوتا ہے ، تو آپ کا خیال ضرور جلوہ گر ہوتا ہے ، اور اس وقت نہ جانے کتنی باتین آپ کی یاد