درراہِ عشق مرحلۂ قرب وبعد نیست
می بینمت عیاں ودعا می فرستمت
راہِ عشق میں قرب وبعد کا مرحلہ کہاں ؟ کھلی آنکھوں آپ کو دیکھتا ہوں اور دعا بھیجتا ہوں ۔
میں پرسوں دلی سے آیا ، خطوط جو بیس دن میں آئے اور رکھے تھے ، انھیں الٹ پلٹ رہا تھا ، میں کچھ تلاش کررہا تھا ، میرے بیٹے محمد عابد سلّمہ نے مجھے راستے ہی میں بتادیا تھا کہ انیس بھائی الہ آباد سے آئے تھے ، اور میں تڑپ گیا کہ میں ہی ملاقات کے لئے بے قرار تھا ، اور میں ہی غائب ہوگیا ۔ میں تلاش کررہا تھا کہ انیس بھائی آئے تھے تو کچھ لکھ کر گئے ہوں گے ، پھر ایک جگہ بوئے دوست محسوس ہوئی ، جو مشامِ جاں کو معطر کرگئی ، پھربہت کچھ ملا ، صرف بو نہیں ، پورا گلستاں مل گیا ، عطر کا ڈبہ ہی کھل گیا ۔ ایک نہیں دودو خط ! مجمل نہیں مفصل ! الفاظ نہیں قلب وجگر کے ٹکڑے ! معانی نہیں عشق ومحبت کی سرشاری ! بات نہیں قند ونبات ! پڑھا اور پڑھتا چلا گیا ، جنت نگاہ ، فردوس گوش ، سوز ہی سوز!حلاوت ہی حلاوت ! روح شاداب ہوگئی ، ایمان جگمگا اٹھا ، دل زندہ ہوگیا ، اور کیا کیا ہوا؟ میرے دل میں کوئی سما جائے، اور پھر محسوس کرے ، میرا قلم کوتا ہ ، میرا بیان عاجز ، میں درماندہ ، میرا خیال پراگندہ ، کہاں تک اور کیسے محسوسات قلبی کی ترجمانی کروں ۔
ہاں تو انیس بھائی ! آپ نے اپنے متعلق جو لکھا ہے ، میں دل وجان سے اس کی تصدیق کرتا ہوں ، آدمی معرفت کی جتنی منزلیں طے کرتا ہے ، اسی قدر اپنے کو ذلیل وخوار ، ہیچ وناکارہ اور گنہگار ونابکار سمجھتا ہے ، کیونکہ جب دل پر معرفت کی تجلی پڑتی ہے ، تو وہ صاف دیکھتا ہے کہ خیرات وبرکات ، حسن وجمال ، خوبی وکمال جو کچھ ہے ، سب براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اور اس کی اپنی ذات عدم در عدم ، لاشے محض