اکثر کی اصلاح ، انفرادی صلاح وتقویٰ سے ہوسکتی ہے ۔ جب ان مدرسوں سے کثیر تعداد اچھے اور صالح علماء کی نکلتی تھی ، اس وقت مدارس کے اساتذہ بزرگ ہوتے تھے ، بزرگوں سے تعلق وربط رکھتے تھے ، ذاکر وشاغل ہوتے تھے ، خوفِ خدا اور محبت نبوی سے معمور وسرشار ہوتے تھے ،آج کیا رنگ ہے ؟ باہر کے قانون سے کسی چیز کی اصلاح ممکن نہیں ، بنانے والا قانون بناتا ہے ، توڑنے والا اس سے زیادہ ذہانت صرف کرتا ہے ، اور قانون ٹوٹ جاتا ہے ۔ اصل سرمایہ خشیت الٰہی ، پاسِ شریعت ، احساسِ جواب دہی اور مخلوق خدا پر شفقت وعنایت ہے ۔ تنقید پوشیدہ ہو ، اور اصلاح علانیہ ہو تو بہتر ہے ، جراحی کا عمل ایک ضرورت ہے ، اس کے لئے آپریشن روم مناسب ہے ، علاج ایک مقصد ہے ، اسے کھل کر پیش کیجئے ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اصلاح کی تدبیر بتائیے، اس کو خود اختیار کیجئے ، اور دوسروں کو نشانۂ تنقید بنانے کے بجائے خود اپنی اصلاح میں پیش رفت کیجئے ۔
رہا یہ کہ پھر حکومت کی سرپرستی والے مدارس پر تنقید کیوں کی جائے ، تو معلوم ہونا چاہئے کہ حکومت کی سرپرستی قبول کرنے پر علی الاعلان تنقید ضروری ہے ، اس لئے کہ اس سے مدرسوں کا راستہ اور منزل سب یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں ، اگر لوگ انھیں دینی کے بجائے دنیاوی مدرسہ اور کاروبار قرار دیں ، تو پھر تنقید واصلاح کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ جیسے انگریزی مدارس وکالجز پر اس نقطۂ نظر سے کوئی نہیں تنقید کرتا ، اسی طرح ان سرکاری مدارس پر بھی کوئی تنقید ، اس خاص نقطۂ نظر سے نہ ہوگی ۔ ہاں کسی اور زاویۂ سے ہو تو ہو ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
یکم ؍ ذی الحجہ ۱۴۲۴ ھ