اور اصلاح کی کوشش کرتے رہئے ، مدرسہ اور تعلیم فرض کفایہ ہے ، اگر کسی کوکسی خاص ماحول میں ایمان وعمل کے لئے خطرہ محسوس ہو تاہو ، تو چھوڑ کر الگ ہوجائے اور جہاں ایمان کی سلامتی ہو وہاں کام کرے ، مگر تعلیم اور مدرسہ بند نہیں کیا جاسکتا ، اور تجربہ تو یہ ہے کہ مدرسہ سے باہر ایمان واعمال پر آگ برس رہی ہے ۔ یہ اصحابِ کہف کی پناہ گاہ ہے ۔ انھیں خرابیوں کے ساتھ چلنے دیجئے ۔ ایک مدرسہ بند ہوگا ، تو دوسرا کھلے گا ، مگر اس نظام کو یکسر تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔
میں نے عرض کیا تھا کہ مدرسہ کے تین ارکان میں سے ایک رکن اساتذہ ہیں ، واﷲ اگر اساتذہ انفرادی طور پراپنی اصلاح کرلیں اور کرالیں تو مدارس میں بڑی حد تک سدھار آجائے گا ۔ طلبہ اربابِ انتظام سے نہیں اساتذہ سے بنتے ہیں ۔ انھیں کی نیتوں اور انھیں کے اعمال پر زیادہ مدار رہتا ہے ۔ ان کا باطن شفاف ہو ، ان کا ظاہر بے داغ ہو ، ان کے اعمال میزانِ شریعت پر پورے اترتے ہوں ، تو یہ خیر ہمہ جہت وسعت اختیار کرلے گا۔
اپنے علاقہ اور دوسرے علاقوں کے طلبہ میں تفریق ہے تو بہت بری ، مگر آپ بتائیں کیا اربابِ مدارس کو قوت حاکمانہ حاصل ہے ؟ نہیں ہے ، تو بعض اوقات اھون البلیتین کے اصول پر ارباب مدارس کو ایسا کرنا پڑتا ہے ، گو کہ یہ عذر گناہ بد تر ازگناہ مناسب نہیں ہے ۔ مناسب یہ ہے کہ اہل مدارس کوئی ایسا قانون نہ بنائیں ، جس میں مجبوراً تفریق والا عمل کرنا پڑے ۔ اصول وقانون چاہے جزوی ہو ، بہت غور وفکر کے بعد اس کے اثرات کا جائزہ لے کر ہی بنانا چاہئے ، اس میں ارباب انتظام سے بہت غلطی ہوتی ہے ۔
اور کیا عرض کروں ، غلطیاں اور ہماری خامیاں تو بہت ہیں ۔ جن میں سے