ہوگی اور نہ خود معطی کی ملک رہے ۔واﷲ تعالیٰ أعلم (تذکرۃ الرشید ،ج:۱،ص:۱۶۵)
مدرسوں کے اندر جو خرابیاں ہیں ۔ ان کی اصلاح ضروری ہے ، مگر اصلاح ایسی نہ ہو ، جس سے مزید خرابیاں یا نئی خرابیاں پیداہوجائیں ۔نفوس کی انفرادی خرابیوں نے اجتماعی خرابیوں کی تخم ریزی کی ہے ، نفوس کی اصلاح نہ ہونے کہ وجہ سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ، اور ان کی اصلاح رابطہ وغیرہ سے کبھی نہ ہوگی ۔ مجھے خوب تجربہ ہے ، یہی لوگ اپنے نفس کی تمام خرابیوں کے ساتھ جب ایک جگہ اکٹھا ہوں گے تو ان خرابیوں کا ظہور نئے نئے انداز سے ہوگا، بسا اوقات ملنے سے زیادہ ’’ہجران جمیل ‘‘ ہی مناسب ہوتا ہے ۔(۱)
(۲) مدرسہ صرف ارباب انتظام کا نام نہیں ہے ، اس کے دوارکان اور بھی ہیں ۔ اساتذہ اور طلبہ ، اصلاح ہمہ جہت ہونی چاہئے ۔ اور یہ بھی تجربہ ہے کہ کوئی مدرسہ دوسرے مدرسہ کی اصلاح نہیں کرسکتا ، خود مدرسے میں کوئی ذمہ دار فرد اصلاح کی طرف توجہ دے ، اور جو اصلاح وہ کرنا چاہتا ہے ، اس کے خلاف خود اس کا عمل نہ ہو یعنی وہ صلاح سے متصف ہو ، علم وتقویٰ دونوں کا خاص وزن اس کے اندر ہو ، اس کا عمل اس کے قول کی تکذیب نہ کرتا ہو ، اس کا حال اس کے دعویٰ کو جھٹلاتا نہ ہو ، تو اصلاح کا امکان خاصا بڑھ جاتا ہے ۔ ورنہ ’’خود را فضیحت دیگراں را نصیحت ‘‘ بن کر رہ جاتا ہے ۔
آج صرف مدارس کے پیمانے پر نہیں ، ملی پیمانے پر اتحاد واتفاق کا نعرہ بہت لگتا ہے ، مگر جوبھی اتحاد کا اعلان لے کر کھڑا ہوتا ہے ، کچھ دنوں کے کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ اس کا ٹولہ الگ بن کر رہ جاتا ہے ، اور اختلاف کا نیا شاخسانہ جلوہ گر ہوجاتا ہے ۔ اس لئے جو خرابیاں نظر آتی ہیں ، انھیں ہلکا کرنے کی کوشش کرتے رہئے ، کم ازکم اپنے کو ان خرابیوں سے بچائے رکھئے ، انھیں خرابیوں کے ساتھ مدارس کو چلاتے رہئے ،