حضرت سہارن پوری نے اس کا جواب لکھا کہ :
’’بندہ کے خیال میں سلطان میں دو وصف ہیں ، ایک حکومت ، جس کا ثمرہ تنفیذِ حدود وقصاص ہے ۔ دوسرا انتظام حقوق عامہ ، امر اول میں کوئی اس کا قائم مقام نہیں ہوسکتا ، امر ثانی میں اہل حل وعقد بوقت ضرورت قائم مقام ہوسکتے ہیں ، وجہ یہ ہے کہ ا ہل حل وعقد کی رائے ومشورہ کے ساتھ نصب سلطان وابستہ ہے ، جوبابِ انتظام سے ہے ، لہٰذا مالی انتظام مدارس جو برضائے ملاک و طلبہ ابقائے دین کے لئے کیا گیا ہے ، بالاولیٰ معتبر ہوگا ، اور ذرا غور فرمائیں انتظام جمعہ کے لئے عامہ کا نصب امام معتبر ہونا ، جزئیات میں اس کی نظیر شاید ہوسکے ۔(ج؛۶،ص:۲۶۶)
مولانا کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ اربابِ انتظام طلبہ کی طرف سے وکیل ہوتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتو بہت سے دوسرے مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے ۔
تو جس طرح یہ کہا گیا ہے ۔۔۔کہ سلطان کو ولایت عامہ حاصل ہے ، اور دلالۃً وہ سب کا وکیل ہے ، اسی طرح مہتمم مدرسہ کو طلبہ کی طرف سے دلالۃً انتظامی وکالت حاصل ہے ۔ اس میں بہت سی مشکلات کا حل ہے ۔
یہی سوال حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ سے کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ :
’’مہتمم مدرسہ کا قیم ونائب جملہ طلبہ کا ہوتا ہے ، جیسا کہ امیر نائب جملہ عالم کا ہوتا ہے ، پس جو شیٔ کسی نے مہتمم کودی ، مہتمم کا قبضہ خود طلبہ کا قبضہ ہے ، اس کے قبض سے ملک معطی سے نکلا اور ملک طلبہ کا ہوگیا ، اگر چہ وہ مجہول الکمیۃ والذوات ہوں ، مگر نائب معین ہے ، بس بعد موت معطی کے ملکِ ورثہ اس میں نہیں ہوسکتی اور مہتمم بعض وجوہ میں وکیل معطی کا بھی ہوسکتا ہے ، بہر حال نہ یہ وقف کا مال ہے اور نہ ملک ورثہ معطی کی