کریں گے ، یعنی اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کریں گے ، یا ایسی جگہ خرچ کریں ، جس کا طلبہ سے تعلق نہ ہو یا اسراف کریں ، تو یہ ان کا جرم ہوگا ،
یہاں ایک سوال ہوگا کہ مؤکل معلوم نہیں کون کون ہیں ؟اور انھوں نے کب وکیل بنایا ؟ حکومت کوتو ولایت عامہ حاصل ہوتی ہے ، جوجو حکومت کے دائرے میں آتا جائے گا ، اس کی وکالت امیر المومنین کو حاصل ہوتی جائے گی ۔ یہاں نہ تو حکومت جیسی ولایت ہے ، اور نہ طلبہ نے وکیل بنایا ہے ؟ یہ اشکال واقعی قابل غور ہے ۔
حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری قدس سرہٗ کی خدمت میں ایک سوال کیا تھا کہ ’’مدرسہ میں جو روپیہ آتا ہے ، اگر یہ وقف ہے تو بقاء عین کے ساتھ انتفاع کہاں ہے ؟ اور اگر یہ ملکِ معطی ہے تو اس کے مرجانے کے بعد ورثہ کی جانب واپسی واجب ہے،(امداد الفتاویٰ ج: ۶،ص:۲۶۲)
اس کے جواب میں مولانانے لکھا کہ :
’’عاجز کے نزدیک مدارس کا روپیہ وقف نہیں ہے ، مگر اہل مدرسہ مثل عمال بیت المال معطین اور آخذین کی طرف سے وکلاء ہیں ، لہٰذا نہ اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی ، اور نہ معطین واپس لے سکتے ہیں ‘‘(ج:۶،ص:۲۶۳)
اس پر حضرت تھانویؒ نے اشکال فرمایا کہ :
’’عمال بیت المال منصوب من السلطان ہیں ، اور سلطان کو ولایت عامہ ہے ، اس لئے وہ سب کا وکیل بن سکتا ہے ، اور مقیس میں ولایت عامہ نہیں ہے ، اس لئے آخذین کا وکیل کیسے بنے گا ؟ کیونکہ نہ تو کیل صریح ہے ، نہ دلالۃً ہے ، اور مقیس علیہ میں دلالۃً ہے کہ وہ سب اس کے زیر اطاعت ہیں ،ا ور وہ واجب الاطاعت ہے ۔(ج:۶،ص:۲۶۴)