برادرم ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
مزاج گرامی
آپ کا عنایت نامہ ملا ۔ مجھے یقین تھا کہ میری گزارشوں پر آپ کو ناگواری قطعاً نہ ہوگی ، اسی لئے بے تکلف لکھتا گیا ۔ اور بے تکلف پیش بھی کردیا ۔ آپ ماشاء اﷲ میری توقع سے بڑھ کر نکلے کہ نہ صرف یہ کہ ناگواری نہیں ہوئی ، بلکہ آپ نے خوشی کااظہار کیا ۔کثر اﷲ أمثالکم وبارک فی علومکم
مدارس کے ارباب انتظام کی دو حیثیت ہوسکتی ہے ، ایک یہ کہ وہ امین ہوں ، جو اغنیاء سے زکوٰۃ کی رقم بطور امانت لے کر اسے فقراء پر خرچ کریں ۔اس صورت میں ودیعت کے احکام اس رقم پر جاری ہوں گے ۔ مثلاً جو رقم مدرسوں کے ذمہ داروں کے قبضے میں آئی ہے ، وہ بدستور صاحب اموال کی ملکیت میں رہے گی ۔ امین صرف اس کا نائب ہوتا ہے ، پھر جب تک وہ رقم خرچ نہ ہوگی ۔ یعنی فقراء کی ملکیت میں نہیں جائے گی ، زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ، چاہے سال چھ مہینے گزر جائیں ، اسی طرح اگر فقراء کی ملکیت سے پہلے صاحب مال ۔۔۔مرگیا تو اس میں وراثت کا قانون بھی جاری ہوگا ۔ پھر یہ کہ وہ رقم چونکہ امانت کی ہے ، اس لئے اسے بجنسہٖ محفوظ رکھنا ضروری ہوگا ۔ ورنہ خیانت لازم ہوگی ۔ اور اگر وہ بغیر کسی تعدی کے ہلاک ہوگئی ، تو جب امین پر ضمان نہ ہوگا ، تو زکوٰۃ بھی ادا نہ ہوگی ، صاحب مال کو پھر سے زکوٰۃ ادا کرنی ضروری ہوگی ۔ وغیرہ
دوسری حیثیت یہ ہے کہ ذمہ داران مدارس کو طلبہ کا وکیل قرار دیا جائے ، کہ ان کی طرف سے یہ حضرات زکوٰۃ کے مال پر قابض ہوں ۔ یہ قبضہ در حقیقت مؤکل کا ہوگا، اس لئے تملیک اسی وقت متحقق ہوجائے گی ، صاحب مال کی زکوٰۃ ادا ہوگئی ، اب یہ ذمہ داری ان وکیلوں پر ہے کہ اپنے مؤکلوں پر اسے خرچ کریں ، اگر اس کے خلاف