تصوف کا منتہاء اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو آپ نے زہد کی تعریف اور تعارف میں لکھا ہے ۔ باقی جن چیزوں کو آپ نے تصوف قرار دے کر اسے مطعون کیا ہے ، کیا وہ سب تصوف کے اجزاء ولوازم ہیں ؟ کاش آپ اس پر غور کرتے ، ان میں بعض تو سرے سے تصوف سے متعلق ہی نہیں ہیں ، بعض وسائل ومقدمات ہیں ، جن کو تصوف کا نام دینا غلط ہے ، اس وقت مجھے ان امور پر تفصیل سے گفتگو نہیں کرنی ہے ، ورنہ عرض کرتا کہ جن لوگوں نے تصوف کو بدنام کیا ہے وہ اس سے کتنے ناآشنا ہیں ، اس وقت صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر آپ نے وہ سب نہ کہا ہوتا جو لکھا ہے ، بلکہ آپ یہ لکھتے کہ’’جو کچھ ہم نے زہد کے سلسلے میں کہا یہی اصل تصوف ہے ، اور جو کچھ تصوف کے نام پر تعطل پھیلایا جارہا ہے ، یا بدعات وخرافات کی اشاعت کی جارہی ہے ، اس سے تصوف کا دامن پاک ہے اگر آپ نے یہ تعبیر اختیار کی ہوتی تو بات کتنی صحیح ہوتی ۔
پھر مزید حیرت اس بات پر ہوئی کہ فن حدیث کے کسی مسئلہ پر آپ کو حوالہ دینا ہواتو آپ نے ائمہ محدثین کی روایتیں نقل کیں ، اور قاعدہ ودستور بھی یہی ہے کہ کوئی بھی فن ہو اس کے سلسلے میں اس کے ائمہ ماہرین ہی کی بات معتبر ہوتی ہے ، اور انھیں کو حوالہ میں پیش کیا جاتا ہے ، لیکن آہ غریب تصوف! اس کی تفصیل جاننے کی ضرورت ہوئی تو آپ حاشیہ میں کن کی طرف رجوع کا مشورہ دیتے ہیں ؟ ایک صاحب تو سرے سے مسلمان ہی نہیں ہیں ، دوسرے خدا معلوم کیا ہیں ؟ اور تیسرے صاحب(ابن جوزیؒ) تو اپنے تشدد میں خود محدثین کے درمیان نیک نام ہیں ، انھوں نے محدثین اور فقہاء پر کون سا کرم کیا ہے جو تصوف غریب ان کی دستبرد سے بچ جاتا ، اگر ان کی یہ کتاب(تلبیس ابلیس) صوفیہ کے حق میں قابل اعتبار ہے تو بسم اﷲ محدثین اور فقہاء کو بھی اسی قابل اعتبار معیار پر پرکھ کر دیکھئے، کتنے آدمی اورکون سا فن