آپ نہ جانے کیا کیا کرچکے اور ہم تیلی کے بیل جہاں سے چلے تھے اب تک وہیں ہیں ، آپ نے کتنا خوب یہ کام کیا ، حدیث نبوی کی خدمت کی ، محنت ایسی کی کہ ہم جیسے کاہل اور کام چور اس کے تصورسے گھبرائیں ، اور تحقیق ایسی کہ اکابر محققین کی صف میں جگہ پائے ، بہت پسند آیا یہ کام ، رشک بھی آیا ،اور غصہ بھی آیا آپ پر نہیں اپنے پر ، پھر تمہید کا وہ حصہ جو آپ نے ’’الزھد‘‘ کے متعلق لکھا ہے اتنا تو اسی وقت پڑھ لیا ، پھر مصروفیات ۔۔۔اگر یہ تعبیر صحیح ہے ۔۔۔میں کھو گیا ، آج فرصت نکال کر پوری تمہید پڑھ دالی ، ماشاء اﷲ ،سبحان اﷲ زبان ودل سے نکلتا رہا ، جو کچھ آپ نے اس میں جمع کردیا ہے ، تعریف وتوصیف سے بے نیاز ہے ، لیکن زہد کی تعریف وتعارف لکھتے لکھتے نہ جانے کیوں آپ نجدی اور غیر مقلدی زبان بولنے لگے ، آخر تصوف نے کیا قصور کیا تھا ، جو اس پر آپ برس پڑے ، کاش یہ حصہ آپ کے قلم سے نہ ہوتا ،تصوف بے چارہ یونہی کچھ اپنوں اور کچھ آج کل کے خود ساختہ محدثین کے ہاتھوں مظلوم بنا ہوا ہے ، آپ کچھ دفاع کرتے ، کچھ اس کے آنسو پوچھتے ، یہ کیا کیا کہ چلتے چلاتے آپ نے بھی ایک ہاتھ جمادیا ، ہمارے بہت سے اکابرہیں ، متقدمین میں بھی اور متأخرین میں بھی جن کی ولایت ، ثقاہت ، عظمت اور امامت مسلم ہے ، ان کا راس المال ہی تصوف ہے ، تصوف کو مطعون کرنا در حقیقت ان اکابر کو مطعون کرنا ہے ، جو ہم لوگوں کے لئے قطعاً زیبا نہیں ہے ، اور برا مال کہاں نہیں ہوتا ایسا کون سا فن اور کام ہے جس میں ناقابل اعتبار افراد کی بھیڑ نہیں لگی ہے ، لیکن اس سے فن کی عظمت پر حرف نہیں آتا،آخر فن حدیث میں ساقط الاعتبار افراد کی ایک لمبی قطار نہیں ہے ، لیکن ان افراد کو چھانٹ کر الگ کردیا جاتا ہے ، فن کو مطعون نہیں کیا جاتا ، اب تصوف ہی کا کیا قصور ہے کہ اس میں جاہل اور بدعتی افراد آگئے ، تو وہ سرے سے گردن زدنی قرار دیا گیا ،