کارآمد بچتا ہے ،…آپ تو اکابر دیوبند کے احوال سے واقف ہیں ، تصوف ان حضرات کا طرۂ افتخار ہے…آپ کے قلم سے یہ تحریر بالکل بے زیب معلوم ہوتی ہے ، اب میں کیا عرض کروں درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ، میں نے تو ابھی ہندوستان کے باہر قدم نہیں رکھا ہے ، لیکن اپنے ملک میں اس گروہ کو خوب دیکھتا ہوں ، جو مسلک حق پر رہ کر تصوف کا بھی ذوق آشنا ہے ، اور ان بہادروں سے بھی سابقہ پڑتارہتا ہے ، جو اس سے دامن چھڑاکر الفاظِ حدیث کاجھندا اٹھائے ہوئے غوغا مچاتے رہتے ہیں ، کس قدر فرق ہے دونوں کی طبیعتوں میں ، میں یہ نہیں کہتا کہ پہلا گروہ معصوم وبرگزیدہ ہے ، صرف دونوں کے درمیان نسبت کی بات کررہاہوں ، آپ خود بھی واقف ہیں ، اب میں کیا کہوں ۔
عوام کو تصوف سے برگشتہ کرکے اور علماء کو تصوف کے خلاف صف آراء بنا کر ان لوگوں نے دین کی کوئی اچھی خدمت نہیں کی ہے ، مجھے کسی طرح یہ یقین نہیں آتا کہ تمہید کی یہ چند سطر یں آپ ہی کی ہیں ، کہیں ایسا تو نہیں ؟
؎زبان میری ہے بات ان کی کا قصہ ہو،
آپ برا نہ مانیں ، باتیں تو بہت ہیں ، مگر آپ کے ملال طبع کے خیال سے عرض کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تاہم آخر میں پھر عرض ہے کہ آپ کے مضمون میں کچھ کمی نہ ر ہ جاتی اگر آپ یہ ایک صفحہ نہ لکھے ہوتے ، ملال خاطر کا اگر باعث بناہوں تو معافی کا خواستگار ہوں ، فقط والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۲؍جمادی الاخریٰ۱۴۰۹ھ
٭٭٭٭٭