برادر گرامی قدر وفاضل محقق! بارک اﷲ فی حیاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
مزاج گرامی
چند ماہ قبل برادر مکرم مولانا فضل حق صاحب نے بشارت سنائی کہ ’’الزھد‘‘ کا ایک نسخہ آپ نے اس نیاز مند کے لئے مختص کیا ہے ، اسی وقت دل نے خوشی سے بے تاب ہوکر بہت سی دعائیں آپ کو دے ڈالیں ، اور یہ حکم بھی سنادیا کہ شکریہ کا پیشگی خط ابھی ارسال کردو ، چنانچہ مولانا فضل حق صاحب سے آپ کا پتہ بھی حاصل کرلیا کہ مدرسہ پہونچ کر اپنی مسرت کی خبر اور آپ کی ذرہ نوازی کا شکریہ تو آپ تک پہنچاہی دوں ، لیکن نہ جانے کیا ہواکہ یہ ارادہ مشاغل میں رل گیا ، پھر اچانک ایک دن معلوم ہوا،کہ کتاب خیرآباد آچکی ہے ، طبیعت پھر لہرائی ، پرانی خوشی بدرجہا بڑھ کر لوٹی ، قلم نے بے قراری دکھائی ، کہ اب تو چل پڑوں ، مگر آپ کا پتہ نہ مل سکا ، مجبور ہوکر صبر کیا ، پھر ایسا ہواکہ ایک روز مولانا فضل حق صاحب نے بنفس نفیس کرم فرمایا، کتاب لے کر تشریف لائے ، صورت ہی دیکھ کر طبیعت پھڑک گئی ، کتنی خوبصورت جلد ہے اور کتنی حسین طباعت ہے ، لیکن اس میں کیا ندرت ہے ؟یہ تو ایک عام بات ہے، نظر جہاں جم کر رہ گئی وہ ایک مختصر سی باریک قلم کی عبارت ہے ، مگر اس اس کے پیچھے ایک محشر خیال ہے ، ’’تحقیق، محمد ابواللیث الخیرآبادی‘‘ نہ جانے اس مختصر سی عبارت میں کتنی جاذبیت اور حسن ہے کہ میں دیر تک اسے دیکھتا رہ گیا ، پھر ایک شعر ذہن کے افق پر ایسا ابھرا کہ میں اسی میں کھو کر رہ گیا ، ؎
ماومجنوں ہم سبق بودیم دردیوانِ عشق
اوبصحرا رفت وما در کوچہا رسوا شدیم