صبر کرنے پر اﷲ تعالیٰ نے تین نعمتوں کا وعدہ قرآن میں فرمایا ہے ، یہ بات کسی اور چیز اور عمل کو حاصل نہیں ہے ، فرماتے ہیں : أُوْلٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ ،یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے رب کی جانب سے مہربانیاں ہیں اور رحمت ہے ، اور یہ لوگ ہدایت یاب ہیں ۔
حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بچے کے مرنے پر روپیٹ رہی تھی ، رسول اﷲ ا اس کے پاس تشریف لے گئے ، اور فرمایا کہ اﷲ سے ڈر اور صبر کر ، اس نے کہا کہ آپ کو میری مصیبت کی کیا پروا ؟ آپ یہ سن کر وہاں سے چلے گئے ، اسے بتایا گیا کہ یہ اﷲ کے رسول تھے (ﷺ) یہ سن کر اس کی وہ حالت ہوئی ، جیسے مر ہی جائے گی ، تیزی سے آپ کے دروازے پر آئی ، وہاں کوئی دربان وغیرہ نہ تھا ، اس نے عرض کیا ، اے اﷲ کے رسول ! میں نے آپ کو پہچانا نہیں ، آپ نے فرمایا صبر تو شروع صدمہ میں ہی ہوتا ہے ۔ ( بخاری و مسلم )
آپ کی منشایہ تھی ، کہ مصیبت پر خواہ وہ کتنی ہی شدید ہو ، آخر کار صبر تو آہی جاتا ہے ، لیکن صبر وہی قابل تعریف ہے ، جو مصیبت کی تیزی اور شدت کے وقت میں ہو ، کیونکہ گھبراہٹ چاہے جتنی بڑی ہو ، اس سے ایک وقت گذرنے کے بعد تسکین ہوہی جاتی ہے ۔
بڑے ابا! مجھ کو تو اﷲ تعالیٰ نے مقام صبر سے بہت آسان گزاردیا ، اور ان کی مہربانیاں دم بدم دیکھ رہا ہوں ، میرے گھر والوں کو بھی بتادیجئے کہ صبر کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ اور وہ کیونکر حاصل ہوتا ہے ۔
بیٹا صبر کے معنی روکنا ہے ، صبر کا مدار تین باتوں پر ہے ، اﷲ کے فیصلے پر ناگواری اور ناراضگی سے اپنے نفس کو روکنا ، ناروا اور غلط باتوں کے بولنے سے اپنی