آپ ا کی مجلس شریف منعقد ہے ، آپ صحابۂ کرامث سے مخاطب ہیں ، دیکھئے فرمارہے ہیں :
’’ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ، اس کے ساتھ جو بھی پیش آئے خیر ہی خیر ہے، یہ بات مومن کے علاوہ اور کسی کو حاصل نہیں ہے ، اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو اﷲ کا شکر ادا کرتا ہے ، اور یہ بات اس کے حق میں خیر ہے ، اگر تکلیف پہونچتی ہے تو صبر کرتا ہے ، اور یہ بات بھی اس کے حق میں خیر ہے ۔( مسلم من حدیث صھیب )
جوشخص کوشش کرکے صبر کرتاہے ، اسے اﷲ تعالیٰ صبر عطا فرمادیتے ہیں ، اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو صبر سے بہتر اور اس سے بڑا عطیہ کوئی اور نہیں ملتا ۔( بخاری ومسلم عن ابی سعید الخدری )
اور سنئے ! آپ ا فرماتے ہیں کہ :
اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیں کے پاس وحی بھیجی کہ میں تمہارے بعد ایک امت کو پیدا کروں گا ، جس کا حال یہ ہوگا کہ ان کو جب عمدہ حال میسر ہوگا تو اﷲ کی حمد کریں گے ، اور جب ناگوار بات پیش آئے گی تو ثواب کی امید رکھں گے ، اور صبر کریں گے ، حالانکہ انھیں نہ علم ہوگا نہ حلم ہوگا ، عرض کیا پروردگار! تب یہ بات کیونکر ہوگی ، فرمایا : میں اپنے علم اور حلم کا حصہ انھیں بخشوں گا ۔ ( مسنداحمد عن ابی الدرداء )
جتنی بڑی مصیبت اتنا ہی بڑا ثواب ، حق تعالیٰ کی مہربانیوں کے انداز عجب دلنواز ہیں ، ابتداء ً دل خراشی معلوم ہوتی ہے ، مگر حقیقت اس کی دلنوازی ہوتی ہے، رسول اﷲا جو ترجمانِ غیب ہیں ، بشارت سنارہے ہیں :