میرا دل بھی نڈھال ہے ، قلم بھی نڈھا ل ہورہا ہے ، آپ سے بات کرنے کا تقاضا ہورہا تھا تو عالم تصور میں ہم کلام ہوا ، پھر جی میں آیا کہ دل کا بوجھ صفحۂ کاغذ پر اتاردوں ۔کج مج طریقے پر کچھ تو اتاردیا ، مگر ابھی کچھ باقی رہ گیا ہے ، اب قلم تھرتھرارہا ہے ، اسے مہلت دیتا ہوں ، ہوسکتا ہے کہ بعد میں کچھ اور لکھوں ، دل ہر وقت دعا میں مشغول ہے ، اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت نازل فرمائے ۔ والسلام
اعجاز احمداعظمی
۷؍ ذوالحجہ ۱۴۲۲ھ
٭٭٭٭٭
برادرِمکرم! عافاکم اﷲ ورزقکم صبراً جمیلاً وآتاکم أجراً جزیلاً
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
مزاجِ گرامی!
ابھی کچھ دیر پہلے کچھ منتشر سطریں لکھ چکا ہوں ، پھر طبیعت کا تقاضا ہورہا ہے کہ کچھ اور لکھوں ، میری طبیعت خود بے چین ہے ،ا پنے کو بھی تسلی دینی ہے ، اور آپ کو بھی سنانا ہے ، جی چاہتا ہے کہ وہ ذاتِ گرامی جو محبوبِ ربِ کائنات ہے جس کے صدقے میں ہم کو ایمان ملا ہے ، اﷲ ملا ہے ، جس پر ہمارا سب کچھ قربان ! یعنی حضرت محمد رسول اﷲ ا ، انھیں کے دربار میں حاضری دی جائے اور جو کچھ وہ فرماتے ہیں ، اسے دل کے کان سے سنا جائے ، ان کے ارشادات مداوائے زخم دل ہیں ، ان سے بڑا ہمدرد وغمخوار اس کائناتِ انسانی میں کوئی نہیں ، ان کو دیکھ لینے ، ان کو سن لینے کے بعد ہر غم ہلکا ہے ، آئیے چلیں انھیں کی خدمت میں باادب حاضری دیں ، باوضو ہولیں ، نگاہیں نیچی کرلیں ، پوری توجہ دلی سے حاضر دربار ہوں ۔