سب سے بڑھ کر ہے ، محبوب بیٹے کی جدائی ناقابل برداشت ہے ، مگر کائنات کی ہر چیز اﷲ کی ملکیت ہے ، اور مومن کی کوئی چیز اس سے جدا ہوکر ضائع نہیں ہوتی ، وہ خدا کی ضمانت میں پہونچ جاتی ہے ، دنیا کے تغیرات سے پاک ہوجاتی ہے ، اس میں ترقی کا عمل تو جاری رہتا ہے ، لیکن تنزل وضیاع سے محفوظ ہوجاتی ہے ، پھر ایک دن آئے گا کہ ہم بھی وہیں پہونچ جائیں گے ، جہاں وہ محبوب شے محفوظ ہے ، پھر ایسی ملاقات ہوگی ، جس کو داغِ جدائی کا صدمہ نہیں سہنا پڑے گا ۔ یہ عقیدہ ، یہ حال اور خیال مومن کو ہر حال میں سنبھالے رہتا ہے ، وہ خدا کی رضا کی بشارت پاکر مصائب میں بھی مسکراتا ہے ۔
رات میں قاری شبیر احمد صاحب کو اس حادثہ کی اطلاع دے رہا تھا ، اور دل تھا کہ امنڈا چلا آتا تھا ، بڑی مشکلوں سے دل پر قابو پاکر انھیں اطلا ع دے سکا ، وہ بھی سنتے ہی پریشان ہوگئے ، بقرعید کے دوسرے روز آنے کو کہہ رہے تھے ، جہاں جہاں تک یہ خبر جاتی ہے، درد کا ایک سیلاب امنڈا ہوا محسوس ہوتا ہے ، لیکن پروردگار! آپ راضی ہوں تو سب آسان ہے ، مگر مولیٰ ! آپ کی جانب سے عافیت کی رداء سایہ فگن ہوجائے ، تو اسی کی امید ہے ، اور اسی کی آرزو ہے ،إن لم تکن ساخطاً علیّ فلا أبالی غیر أن عافیتک أوسع لی ۔
عبید اﷲکی ماں اور بھائی بہنوں پر بھی بہت اثر ہوگا ، ان سب کو صبر کی تلقین کیجئے ، کوئی ایسا کلمہ منہ سے نہ نکالیں ، جس سے عبید اﷲ کو فرشتوں کے سامنے محجوب ہونا پڑے ۔ فرزندعزیز اپنا وقت پورا کرکے گیا ہے ، ہم کو معلوم نہ تھا کہ اتنے ہی وقت کے لئے آیا تھا ، اب معلوم ہوا ، دل امنڈے تو آنسو بہالیں ، مگر زبان سے بجز إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون کے اور کچھ نہ کہیں ، یا کہیں تو وہ بات کہیں جس میں اﷲ تعالیٰ کی رضامندی ہو ۔