کی برکت ہے کہ میرے مصنف وانشاء پرداز ہونے کا گمان میرے دوستوں کو ہورہا ہے ، انھوں نے اور تحریروں کے ساتھ میرے خطوط کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔ میرے طالب علموں میں یہ خوبی ہے کہ فراغت کے بعد عموماً انھوں نے مجھ سے رابطہ منقطع نہیں کیا ، ملتے ہیں ، فون کرتے ہیں ۔ عزیز موصوف نے رابطہ کرکے ان سے میرے خطوط حاصل کئے ، کچھ میری کاپیوں میں تھے انھیں یکجا کیا اور ماہنامہ ضیاء الاسلام میں انھیں ’’حدیث دوستاں ‘‘ کے عنوان سے مسلسل شائع کیا ۔ جب ان کا ایک قابل لحاظ حصہ شائع ہوچکا تو ان مطبوعہ اور دوسرے بہت سے غیر مطبوعہ خطوط کو ملاکر ایک کتاب بنانے کا انھوں نے عزم کیا ۔ اس کے لئے انھوں نے بہت محنت وکاوش کی ، اﷲ انھیں جزائے خیر دے !
اس مجموعہ میں زیادہ تر خطوط طالب علموں کے نام ہیں ، کچھ خطوط بزرگوں کے نام بھی ہیں ۔ میں نے اپنے بعض بزرگوں کے نام بھی متعدد خطوط لکھے ہیں ۔ خاص طور سے حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڈھی قدس سرہ، حضرت مولانا قاری حبیب احمد صاحب الہ آبادی نور اﷲ مرقدہ،اور حضرت اقدس ماسٹر محمد قاسم صاحب مدظلہٗ کے نام بکثرت خطوط لکھے ، ان کے علاوہ اپنے ایک بوڑھے اور معمر دوست حاجی محمد ایوب صاحب کلکتہ والے کے نام بھی بہت سے خطوط لکھے ، اگر یہ سب محفوظ ہوتے ، تو آج انھیں شائع کرتے ہوئے مجھے مسرت ہوتی ، لیکن جو کچھ ملا وہ صرف حضرت اقدس ماسٹر محمد قاسم صاحب مدظلہٗ کے نام خطوط کا مجموعہ ملا ، حضرت موصوف کے بھی بہت سے خطوط میرے پاس محفوظ ہیں ۔حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب علیہ الرحمہ کے مکاتیب گرامی ’’ کھوئے ہوؤں کی جستجو۔۔۔‘‘ (ص:۱۶۸ تا ۱۸۲)میں شائع ہوچکے ہیں ۔