کوئی ہمسر نہ تھا ، میں ان کے ساتھ لگا لپٹا رہا ۔ انھیں کتابیں پڑھ کر سناتاتھا ۔ ذوقِ مطالعہ میں ہم دونوں مشترک تھے ، وہ اکثر مجھ سے خطوط املا کراتے تھے ، وہ خطوط کیا ہوتے ؟ ادبِ عالیہ کے شہ پارے! مولانا آزاد کی کتاب ’’ غبارِ خاطر‘‘ کے عکس جمیل ! میں بہت متاثر ہوتا ، پھر جب حالات نے مجھے امروہہ پہونچایا تو میں نے بھی انھیں کے طرز میں ان کے پاس خطوط لکھنے شروع کئے ۔ یہ میری مکتوب نویسی کا آغاز تھا ، یہ زمانہ ۱۹۶۹ء کاتھا! یہ سلسلہ ۱۹۷۳ء تک قائم رہا۔ اس دوران انھوں نے بھی میرے نام بہت خطوط لکھے اور میں نے بھی لکھے ! بہت طویل طویل ، ایک سے بڑھ کر ایک ادب وانشاء کے شاہکار!
پھر جب ۱۹۷۴ء میں ہم دونوں مدرسہ دینیہ غازی پور میں اکٹھا ہوئے تو یہ سلسلہ بند ہوگیا ، میں نے اپنے اور ان کے خطوط کاایک قابل لحاظ مجموعہ اپنے مکرر مطالعہ کے لئے جمع کرلیاتھا ، مگر اس کی بقا اﷲ کو منظور نہ تھی ، خدا جانے وہ کس کے ہاتھ لگا اور میں اسے ڈھونڈھتا ہی رہ گیا۔
مدرسی کے دور میں مجھے اپنے طالب علموں کو خطوط لکھنے کی نوبت آئی ، ان کی محبت میں ، ان کی تعلیم وتربیت کے لئے میں نے بہت خطوط لکھے ، مجھے کبھی تصور نہیں ہوا کہ یہ خطوط کبھی شائع بھی ہوسکتے ہیں اور نہ اس کا خیال ہواکہ انھیں محفوظ کیا جائے ، چند خطوط جو اہم معلوم ہوئے ، انھیں میں نے اپنی کاپیوں میں نقل کرالیا۔ باقی سب کا حال یہ تھا کا لکھا اور ڈاک میں ڈال دیا، پھر جب فون اور موبائل کا عموم وشیوع ہواتو خطوط کا سلسلہ بند ہوگیا،۔ اب تو شاید کبھی کوئی خط لکھنے کی نوبت آتی ہو۔
میرے عزیز وحبیب مولانا حافظ ضیاء الحق سلّمہ کو میری تحریروں کو جمع کرنے ، انھیں ترتیب دینے اور انھیں شائع کرنے کا بہت اہتمام ہے ، اور آج انھیں کی کاوشوں