( میں چلا کہ پاؤں سے کانٹا نکالوں ، اتنے میں کجاوہ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ، میں ایک لمحہ کیلئے غافل ہوا ، اور سوسال کی راہ دور ہوگئی )
میری ایک بے معنی رہ نوردی ایک پُر مغز اور بامعنی سفر سے مانع بن گئی ، اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو میرا نام بھی شیدائیوں ، تمنائیوں اور آرزو مندوں کے دفتر میں لکھا گیا ہوتا ، لیکن میں کوچہ وصحرا کی خاک چھانتا رہا ، اور خوش بختوں کا گروہ امید وشوق کا سہرا باندھ کر تیار ہوگیا ۔ حق تعالیٰ کو شاید یہی منظور ہے کہ بامرادوں کی جماعت میں نامراد گھسنے نہ پائے ، کہیں اس کی نامرادی دوسروں کے لئے باعث محرومی نہ بن جائے ۔
اچھا ہی ہوا ، میرا کیا منہ تھا کہ میں نے حاضریٔ آستانہ کا حوصلہ کرلیا تھا ۔ کہاں وہ خاکِ پاک جوفرشتوں کے لئے سرمۂ نگاہ ہے ، اور کہاں یہ وجودِ ناپاک ، جو سرے سے بے ننگ ونام ہے ، میں پہلے ہی سمجھتا تھا کہ میرا حوصلہ بیجا ہے ، میری آرزو بے سود ہے ، میری سعی رائیگاں ہے ، جانتا تھا کہ استحقاق کیا چیز ہے ؟ شائبہ ٔ اہلیت بھی نہیں ہے ، پر سوچا کرتا تھا کہ وہ ذاتِ پاک نااہلوں کو بھی نواز دیتی ہے ، مگر اب کھلا کہ یہ نااہلی بحدے رسیدہ کہ اس نے بخشش وعطا کے دروازے تک بند کردیئے ہیں ، اچھا ہوا کہ یہیں روک دیا گیا ، خدا نخواستہ اگر وہاں پہونچ جاتا اور پھر الٹا واپس کردیا جاتا تو ذلت ورُسوائی کی ناقابل محو مہر لگ جاتی ۔ میں راضی ہوں ، دل سے راضی ہوں ، محبوب تعالیٰ کی جو مرضی ہو ! بندہ ہوں کیا دم مارسکتا ہوں ۔ انھوں نے نہ چاہا ، پہلے باوجود کوشش کے کچھ نہ ہوا ، اب سعی وجہد کا موقع ہی نہ دیا ، بس سلادیا ، اور قافلہ کو گزاردیا ۔ اب آنکھیں مل رہا ہوں اور گردِ کارواں دیکھ رہا ہوں ، بہتر ہے ، ؎
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
شوق ناتمام تھا ، حوصلہ برائے نام تھا ، جذب ناقص تھا ، ہمت ادھوری تھی ، پھر سر فروشوں اور جاں سپاروں کی بزمِ ناز میں کہاں گنجائش ہوتی ، اور ہوبھی جاتی تو ناکام