محترم ومکرم جناب حاجی صاحب ! زید مجدھم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
مزاجِ گرامی!
کل شام کو ابرار احمد سلّمہ نے ایک خبر سنائی ، یہ خبر تھی یا بجلی جو قلب وجگر پر گری اور؎
آگ اس گھر میں ایسی لگی کہ جو تھا جل گیا
میں آوارہ گردی اور کوچہ نوردی میں مبتلا تھا ، اور یارانِ تیز گام نے منزل کو جالیا ۔ آپ نے حج کا فارم بھردیا اور اب وقت بھی باقی نہ رہا ۔ اسی وقت سے دل کا عجیب حال ہے ، ایک بے نام سی کیفیت دل پر دھواں بن کر چھائی ہوئی ہے ، وہ کیفیت کیاہے ؟ ہائے کیا بتاؤں ؟ نہ رنج وغم ہے ، نہ حسرت وافسوس ہے ، نہ پریشانی وبد حواسی ہے ، نہ گریۂ وبکا ہے ، سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کیا نام دوں ؟ کس عنوان سے تعبیر کروں ؟ بس یوں کہہ سکتا ہوں کہ ایک تحیر کا سا عالم ہے ، دل میں ہلکا ہلکا ناقابل برداشت سا درد ہورہا ہے ، جس میں لذت وحلاوت بھی ہے ، شوق وبے تابی بھی ہے ، حسرت واندوہ بھی ہے ، ناقابل فہم سی حیرت بھی ، اور غم کے ساتھ آمیز ایک خوشی بھی ہے ، اور نہ جانے کیا کیا ہے ؎
بسیار شیوہاست بتاں را کہ نام نیست
جیسے کوئی صحرا وبیابان میں اچانک لٹ گیا ہو ، اس کے بدن پر پہننے کے کپڑے تک نہ باقی ہوں ، اور اس پر ایک تحیر کا عالم چھا گیا ہو ۔ سوچتا ہوں کہ یہ کیا ہوا ؟ کیوں ہوا ؟ کچھ نہیں ہوا ۔ صرف ایک بات ہوئی۔ ؎
رفتم کہ خار از پا کشم محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل بودم وصد سالہ راہم دور شد