ونامراد لوٹنا پڑتا ۔ اس لئے اچھا ہوا کہ باہر ہی رکھا گیا ۔ اب شاید تازیانہ لگے ، شوق کو مہمیز ہو ، حوصلہ چوٹ کھا کر لہرائے ، جذب میں گیرائی پیدا ہو ، شاید ایسا ہو ، شاید اس لئے کہ اپنی طبع آرام پسند پر نظر پڑتی ہے تو سب آرزوئیں شکست کھاجاتی ہیں ، یہ ایک بے جان اور مردہ طبیعت ہے ، جو شوق ومحبت سے بے پروا ، حوصلہ وہمت سے خالی ، آرزوتمنا سے بے نیاز اور سعی وجہد سے یکسر برکنار ہے ، اس سے کچھ نہیں ہوسکتا ۔ جو کچھ پڑجائے اسے بھگت لینے کی عادی ہے ، لیکن ماضی سے سبق حاصل کرے اور مستقبل پر نگاہ جمائے ، اس کا یارا اسے نہیں ، بس جہاں ہے وہاں ہے ، نہ پیچھے مڑ کر دیکھے، نہ آگے جست لگائے ، ایسی کاہل اور بے مزہ طبیعت کے ساتھ زندگی کا سفر کوئی کیسے قطع کرے ، بس یونہی پڑا رہے ، اور مرجائے ، یہی اس کی قسمت ہے ۔
خیر جانے دیجئے ، یہ حکایت خونچکاں اور شکایت بیکراں کہاں تک کہئے ، یہ بھی ایک دفتر بے معنی ہے ، جسے حافظ شیرازی نے’’ غرق مے ناب اولیٰ ‘‘کہا ہے ، لیکن مے ناب کہاں میسر ؟ اسے چھوڑئیے ، اور یہ بتائیے کہ کیا ارادہ ہے ، تیر کرجائیے گا ، یا اُڑ کر پہونچئے گا ۔ اب میں خلوص دل سے دعا کروں گا، اب آپ کا یہ ارادہ میری غرض کے شائبہ سے پاک ہے ، ان شاء اﷲ آپ ضرور جائیں گے ، اور ہم کو بھی یاد رکھیں گے ۔(۱) فقط والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۶؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۹ھ
(۱) پھر اﷲ کا فضل ہوا، دردوغم کی یہ فریاد عرشِ الٰہی تک پہونچ گئی ، اور نامۂ منظوری لے کر آئی ، چنانچہ اسی سال حرمین شریفین کی پہلی حاضری مقدر ہوئی ، اور میسر آئی ۔ اس کی تفصیل ’’ بطواف کعبہ رفتم ‘‘ میں پڑھئے۔ ٭٭٭٭٭