واکتساب سب میں حسب ضرورت اشتغال ہو ، مگر دل کا رابطہ خدا سے ہو ، اگر یہ بات حاصل ہوجائے تو کافی ہے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اولاً خود کو یادِ الٰہی کا پابند بنایاجائے ، لساناً بھی اور قلباً بھی ، ثانیاً یہ کہ ہر کام کی ابتداء اور انتہاء میں ضرور ، اور درمیان میں بطور اختیار کے اس مضمون کا استحضار کیا جائے کہ ’’ تدبیر ‘‘ ہم نے کرلی ، اس کا نتیجہ خدا کے اختیار میں ہے ، اگر نتیجہ اچھا نکلا تو سبحان اﷲ ، اوراگر ہمارے حسب منشا نہ نکلا تو وہی بہتر ہے ، جو خدا کو منظور ہے ، اﷲ تعالیٰ اس سے بہتر کوئی اور چیز عطا فرمائیں گے ، اس مضمون کا بتکرار استحضار کیا جائے ، تو توکل حاصل ہونے میں دیر نہیں لگے گی ، غرض یہ ہے کہ قلب کا لگاؤ صرف خدا کے ساتھ ہو ، اس کا آرزومند رہنا چاہئے ، اس کی کوشش کرنی چاہئے ، آپ کہیں گے کہ یہ بچوں کی طرح سبق پڑھانے لگے ، کیا کروں ، جب مضمون کچھ نہ تھا اور لکھنا ضرور تھا تو جو کچھ ذہن میں آتا گیا لکھتا گیا ، آپ نے پڑھ بھی لیا ، خدا کرے کچھ مفید ہو ، دعا کرتا ہوں ، اور دعا کا خواہاں ہو۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۷؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۱۰ھ
٭٭٭٭٭
(نوٹ) اس خط کا محرک یہ ہے کہ۱۹۸۸ء میں حاجی عبد الرحمن صاحب خیرآبادی کے ساتھ میں نے بھی حج کا فارم بھرا تھا ، جو باوجود کد وکاوش کے منظور نہ ہوسکا تھا ،دوسرے سال دوبارہ فارم بھرنا تھا ، ۱۱؍ جنوری تک فارم کے جمع ہونے کا وقت تھا ، میں ۲۶؍ دسمبر کو مولانا عبد الرب کے ساتھ الہ آباد اور باندہ کے سفر پر چلا گیا ، پھر ان کے اصرار پر بمبئی چلا گیا۔ اور ادھر کا دھیان نہ رہا ، واپسی ۷؍ جنوری کو ہوئی،حاجی عبد الرحمن صاحب نے مایوس ہوکر ۷؍ جنوری ہی کو فارم بھر دیا اور مجھے اطلا ع نہ ہوسکی ،مدرسہ آنے کے بعد مجھے اس کی اطلاع ملی تو میری جو کچھ کیفیت ہوئی ، درج ِ ذیل خط اس کا ترجمان ہے ،( اعجاز احمد اعظمی)