حسب استعداد ترقی ہوتی رہتی ہے ، لیکن بنیادی سبب یہی ہے کہ وہ اسباب راحت کا ’’فرد اکبر ‘‘ ہے ، لیکن خیال کیجئے کہ کیا یہ واقعہ ہے ، کیا ہر وہ شخص جو مال فراواں رکھتا ہے ، راحت وآرام سے بھی بہرہ یاب ہے ، کیا کسی دولت مند پر پریشانی وناسازگاری کا سایہ نہیں پڑتا ؟ اور کیا غریب ومفلوک الحال ہمہ وقت مضطرب وبدحواس ہی رہتا ہے ، دنیا کا تجربہ بتاتا ہے ایسا نہیں ہے ، نہ جانے کتنے دولت مند ایسے ہیں ، جو چین وآرام کا نام نہیں جانتے ، اورنہ جانے کتنے غریب وبے نوا ایسے ہیں جو ہمیشہ خوش وخرم رہتے ہیں ، پس معلوم ہوا کہ آدمیوں نے جو کچھ فیصلہ کیا ہے وہ غلط مفروضہ اور بے بنیاد خیال ہے ، ہم نے انبیاء کا علم پڑھا ، تجربہ کاروں کی باتیں سنیں ، تاریخ کے اسباق پڑھے ، خود اپنے احوال پر غائرانہ نظر ڈالی ، تو جو سب سے بڑا سببِ راحت ملا جس کے بعد کوئی پریشانی نہیں ، جس کے ہوتے ہوئے کوئی غم نہیں ، جس سے دل کو انتہائی تقویت حاصل ہوتی ہے ، وہ یہ ہے کہ بندہ کو حق تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پر توکل کرنے کا سلیقہ آجائے ، توکل کے معنی ہیں ، کسی کو اپنا وکیل بنالینا ، تو جو رب المشرق والمغرب ہو ، جس کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہ ہو ، اس کو اگر کسی نے اپنا وکیل بنالیا : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلاً، تو اس سے بڑھ کر سبب راحت کیا ہوگا ، توکل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسباب کو ترک کردیا جائے ، بیشک توکل میں ایک درجہ ایسا بھی آتا ہے ، جہاں بہت سے اسباب متروک ہوجاتے ہیں ، لیکن اس کا تعلق غلبۂ حال سے ہے ، صرف عقیدہ اور علم سے نہیں ہے ، اس کا کوئی شخص مکلف نہیں ہے ، اور جب وہ حال پیدا ہوگا تو بغیر کسی مزاحمت کے خود بخود اسباب کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے گا ، توکل جو ہم لوگوں کے لئے قابل حصول ہے ، وہ یہ ہے کہ اعتماد صرف اﷲ پر ہو، دل کا تعلق خدا کے علاوہ کسی اور سے نہ ہو ، مال ودولت ، کسب