بند کروں گا ، نہ جانے کیا کیا لکھا ہوگا ، خدا کرے گرانی ٔ خاطر کا سبب نہ ہو ۔
والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۳؍رجب ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭
بخدمت گرامی قدر جناب حاجی صاحب ! زیدمجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
مزاجِ گرامی !
کل سے برابر طبیعت میں تقاضا ہے کہ آپ کے پاس کچھ لکھوں ، کیا لکھوں یہ مبہم ہے ، اور ابھی تک مبہم ہے ، کوئی خاص بات ذہن میں نہیں ہے ، جو لکھی جاسکے ، تاہم تقاضا ہے ، اور اسی تقاضے سے مجبور ہوکر بغیر اس کی فکر کئے کہ کیا لکھناہے قلم اٹھالیا ہے ، آپ نے خیرآباد میں کہا تھا کہ میرے رُقعہ کا جواب نہیں ملا ، شاید اس کا اثر خفی ہو۔
محترما! دنیا میں حق تعالیٰ راحت کے جن اسباب سے نوازتے ہیں ، ان میں سب سے بڑا ذریعہ مال اور اولاد کو سمجھا جاتا ہے ، عام خیال یہی ہے ، اس لئے ہر شخص اسی تگ ودو میں مبتلا رہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال اور بہتر سے بہتر اولاد حاصل کرے ۔ مال بذاتِ خود کسی کے نزدیک مقصود ومطلوب نہیں ہوتا ، چونکہ یہ قیاماً للناس ہے ، زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے ، اس لئے کوشش کی جاتی ہے کہ وافر مقدار میں مال کا ذخیرہ جمع کرلیا جائے تاکہ کسی وقت تنگی اور پریشانی نہ ہو ، یہی صورتحال اولاد کی بھی ہے ، ہر کس ناکس کے دل میں یہی بات بیٹھی ہوئی ہے، زبان سے اقرار کرے یا نہ کرے ! تحصیل مال کی یہ ابتدائی غرض وغایت ہے ، پھر اس میں