اس ہنگامہ زار دنیا میں اگر کوئی جائے پناہ ہے ، کوئی گوشۂ عافیت ہے ، کوئی خلوت گاہِ راحت ہے ، کوئی مجلس اُنس وشوق ہے ، تو وہ محض یادِمحبوب ہے ، زبان اس محبوبِ حقیقی کانام لیتی رہے ، انگلیاں اس کے شمار پر چلتی رہیں ، دل اس کی محبت سے لبریز ہو ، آنکھیں اس کے عشق میں ڈبڈبارہی ہوں ، جگر اس کے فراق میں جل رہا ہو ، دماغ اس کے وصل کی تدبیریں سوچ رہا ہو ، اس کی یاد بدن میں حرارت پیدا کررہی ہو ، اور اس کا درد آگ بن کر نخل ہستی کو پھونک رہا ہو ، زندگی خواہ راحت سے لبریز ہو یا جراحت سے معمور ! ادھر سے تکلیف ہو یا آرام ، پاس رکھیں یا دور ، رُلائیں یا ہنسائیں ، ہمارا حال تو کچھ اور ہی ہونا چاہئے ، کاش ایسا ہوتا ۔
محبوب کی ہر ادا محبوب ہے ، وہ کالی زُلفیں ہوں یا روشن چہرہ ، دونوں ہی جان لیوا ہیں ، دونوں میں ایک لذت ہے ، مصیبت کی اندھیری رات ہو یا خوشی کا دمکتا ہوا دن ، شامِ غم ہو یا صبح مسرت دونوں دل رُبا ہیں ، الگ الگ شانیں ہیں ، تجلی ایک ہے ، لطف ایک ہے ،حلاوت ایک ہے ، ذوق صحیح ہوتو شیرینی بھی باعث لذت کام ودہن ہے ، اور تلخی بھی لطف ذائقۂ وزبان ! آپ ہی کے ہمنام مولانا عبد الرحمن جامیؔ نے بڑی اچھی بات کہی ؎
بادو روزہ زندگی جامیؔ نہ شد سیر غمت
وہ چہ خوش بودے کہ عمر جاودانی یافتم
دودن کی زندگی میں جامی آپ کے غم سے آسودہ نہ ہوسکا ، کیا خوب ہوتا کہ مجھے عمر جاودانی ملی ہوتی ۔
کیا کیا لکھوں ، بے ربط باتیں ہیں ، آپ اکتا جائیں گے ، دیوانہ ہوں ، ’’دیوانہ را ہوئے بس است ‘‘ کے مصداق قلم اٹھا تو کچھ پتہ ہی نہیں چلا کہ کیا کیا لکھے جارہا ہوں ، جلدی میں ہوں ، نظر ثانی کی بھی فرصت نہیں ، لیکن ایک بار پڑھ کر لفافہ میں