ان کے استقبال میں آگے بڑھ کر ملیں گے ، یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔
جی ہاں ! جب غم کی آندھیاں پریشان کرتی تھیں ، جب دل پر حالات وحوادث کی چوٹیں لگتی تھیں ، جب جگر میں سوزش وتپش کی آگ بھڑکتی تھی ، جب قلب مضطرب اور دماغ بد حواس ہوتا تھا تو اندر ہی اندر کوئی تسلی دیتا تھا کہ مت گھبراؤ ، موسم بدلنے والا ہے ، جگر کی آگ گل وگلزار ہونے والی ہے ، قلب کا اضطراب اور دماغ کی بدحواسی سرور وتازگی سے بدلنے والی ہے ، تو اس وقت خوب سمجھ میں نہیں آتا تھا ، مگر اب دیکھ لو ، اب نہ کہنا جو وعدہ کیا تھا ، وہ پورا نہیں ہوا ، جو تسلی دی گئی تھی ، وہ جھوٹی ثابت ہوئی، لیکن کیا کہئے کہ یہ دل ایک عجیب جوہر ہے ، اسے نہ خوشی میں قرار اور نہ غم میں ثبات،کیا کہوں اسے جوہر عجیب شاید غلط کہہ گیا ، یہ تو ایک روگ ہے ۔ آسی ؔ مرحوم نے کہا اور خوب کہا ، شعر
دل ملا مجھ کو ازل میں تو کسی نے نہ کہا
روگ ہے یہ اسے چھاتی سے لگاتے کیوں ہو ؟
اصل میں سارا روگ اسی دل کا ہے ، یہ سینے میں جاگزیں ہوا ، پھر جو قیامت گذرنی گذر گئی ، یہ آیا تو تنہا نہیں آیا ، محبت ، عشق ، سوز ، گداز ، انتظار ، رنج ،ا ندوہ ، خلش ، ملال ، خوشی ، مسرت ،فرحت ، راحت ، غرض فوج کی فوج اس کے ساتھ لگی چلی آئی ، اب ساری زندگی ان مہمانوں کی میزبانی کرتے رہئے ، جب تک زندگی ہے ، جب تک یہ ہیں ، جہاں موت آئی کہ غم و اندوہ کی فوج رُخصت ، ہائے غالب مرحوم کیا بات کہہ گیا ، ؎
قید ِ حیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں