آنکھیں کھل جاتی ہیں ، اور وہی اس کے لئے شہود بن جاتا ہے ، کاش اس کا کچھ حصہ ہم لوگوں کو نصیب ہوجاتا۔
مدرسہ میں الحمد ﷲسب خیریت ہے ، مولوی عبد الرب صاحب کا خط چند روز ہوئے آیا تھا ، بہت خوش ہیں ، آج شاید وہ مکہ مکرمہ میں ہوں گے ، عمرہ کے لئے جانے کو لکھا تھا ، کل میں نے انھیں خط لکھا ہے ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۷؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭
بخدمت گرامی قدر جناب حاجی صاحب ! زیدمجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
مزاجِ گرامی !
آپ اپنا حال لکھتے ہوئے ڈرتے ہیں ، شرماتے ہیں ، کیا بتاؤں کہ اس کیفیت کے اظہار سے مجھے کس قدر ندامت ہوتی ہے ، آپ نے میری عرض سنی ، میری دلجوئی کی ، کیا میں اتنا گیا گذرا ہوں کہ آپ کی باتیں نہ سن سکوں ، تاہم آپ کے اجمال نے گوشِ دل میں بہت کچھ کہہ دیا ، گو تفصیل سے باخبر نہیں ہوں ، لیکن حالات سے بالکل بے خبر بھی نہیں ہوں ، اور سچ پوچھئے تو یہ تنہا ایک آپ ہی کی داستان نہیں ہے ، ایک عالم کا عالم اسی خلجان میں مبتلا ہے ، ؎
وہ کون سی زمیں ہے جہاں آسماں نہیں
حالات کا مد وجزر کس پر نہیں آتا ، انقلاباتِ روزگار کا شکار کون نہیں بنتا ، ابھی رنج ہے ابھی خوشی ہے ، ابھی بیماری ہے ابھی صحت ہے ، رنج وراحت قدم بقدم ہیں ،