عن أبی ھریرۃ صعن رسول اﷲ ﷺ قال : إن العبد إذا أخطأ خطیئۃً نکتت فی قلبہ نکتۃً سوداء فإذا ھو نزع واستغفرو تاب صقل قلبہ وإن عاد زید فیھا حتیٰ یعلو قلبہ وھو الران الذی ذکر اﷲ ’’کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ‘‘ ۔
حضرت ابوہریرہ ص بنی کریم ا کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ بندہ جب کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے ، پھر جب وہ اس غلطی سے باز آجاتا ہے، اور حق تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے ، اور اگر دوبارہ سہ بارہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا چلاجاتا ہے ، اور نوبت یہاں تک پہونچتی ہے کہ سارا قلب اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے ، یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے ’’کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ‘‘ میں فرمایا ہے ۔
اصل مصیبت یہی ہے ، اس سے بہت ڈرنا چاہئے ، حدیث شریف میں ہے کہ إن اﷲ طیب لا یقبل إلا الطیب ، اﷲ تعالیٰ پاک ہیں اور بجز پاک چیز کے اور کچھ قبول نہیں فرماتے ہیں ، اور یہ بھی معلوم ہے کہ نظرگاہِ حق قلب اور محض قلب ہے ، اگر وہ زنگ خوردہ ہوجائے تو کس کام کا ، گناہ خواہ کوئی ہو ، جان میں ہو، مال میں ہو، حقوق اﷲ کی قبیل سے ہو ، حقوق العباد کی قبیل سے ہو ، اس تاثیر میں سب مشترک ہیں ، ہاں تاثیر کے درجات میں کمی بیشی ہے ، لیکن کپڑوں کا ڈھیر جلانے کے لئے دہکتا ہوا شعلہ اور ٹمٹماتی ہوئی دیاسلائی دونوں خطرناک ہیں ، حق تعالیٰ بے نیاز ہیں ، ان پر کسی کا زور اور دباؤ نہیں ہے ، ان کی بے نیازی اور قدرت کاملہ کو اگر انسان اپنی نگاہ میں رکھے تو ذرے جیسا گناہ بھی پہاڑ محسوس ہوگا ، حق تعالیٰ کی ذاتِ عالی غیب الغیب ہے ، اس لئے انسان جری رہتا ہے ، اگر اس کے اوپر ذرا سی تجلی اتر جائے تو دنیا اور متاعِ دنیا جس کے